جواب :وہ ایک اللہ ہے ، وہی ہر شے کا خالق ہے، ذوات ہوں خواہ افعال سب اسی کے پیدا کئے ہوئے ہیں۔ ساری کائنات کا نظام تربیت اسی کے ہاتھ میں ہے وہی ساری مخلوق کو ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف نشوونما دیتا اور اسے مرتبہ کمال تک پہنچاتا ہے، مربی کے یہی معنی ہیں، دہی مدبر ہے کہ دنیا کے قیامت تک ہونے والے کاموں کو اپنے حکم و امر او ر اپنے قضا ء قدر سے تدبیر فرماتا ہے۔ زمین و آسمان اللہ ہی کی ملک ہیں ہم سب عبد محض ہیں اور تمام تر اسی کی ملک ، ہم خود بھی اور ہماری ہر چیز بھی اس کی مملوک ہیں۔ زمین و آسمان کے یہ سارے کارخانے جو دنیا کے ہر طلسم سے بڑھ کر حیرت انگیز اور انسانی سائنس کے ہر شعبہ سے عجیب تر ہیں، بجائے خود اس کی دلیل ہیں کہ نہ یہ اپنے آپ وجود میں آسکتے ہیں نہ باقی رہ سکتے ہیں جب تک کوئی قادر مطلق ہستی ان کی صانع وخالق اور مربی ومدتر نہ ہو اور وہ نہیں مگر ایک اللہ تعالیٰ واحد قہار جل جلالہ و عز شانہ، ۔
سوال نمبر 2: اللہ کے معنی کیا ہیں؟
جواب :اللہ خدا کے لیے اسم ذات ہے جو واجب الوجود ہے اور ہر کمال و خوبی کا جامع اور ہر اس چیز سے جس میں عیب و نقص ہے،پاک ہے۔ تمام صفاتِ کمالیہ اس میں موجود ہیں۔
سوال نمبر 3: صفات کمالیہ کے کیا معنی ہیں؟
جواب :خدائے تعالیٰ واجب الوجود ہے اس کی ذات تمام کمالات اور خوبیوں سے آراستہ اور ہر قسم کے عیوب و نقائص اور کمزوریوں سے پاک ہے تو اس کمال ذاتی کے لیے جن جن صفات سے اس کی ذات کا متصف ہونا ضروری ہے۔ ان صفات کو صفات کمالیہ کہتے ہیں۔
سوال نمبر 4: صفات کمالیہ کتنی ہیں؟
جواب :اللہ تعالیٰ کی ذات میں بہت سی صفتیں ہیں جن میں اہم صفتیںنو ہیں ۔ باقی صفات انہی نو صفتوں میں سے کسی نہ کسی کے تحت آجاتی ہیں اور وہ نو صفتیں یہ ہیں:
حیات، قدرت، ارادہ و مشیت، علم، سمع، بصر، کلام، تکوین وتخلیق ، رزاقیت۔
سوال نمبر 5: حیات کے کیا معنی ہیں؟
جواب :وہ حی ہے یعنی خود زندہ ہے اور تمام چیزوں کو زندگی والا، پھر جب چاہتا ہے ان کو فنا کر دیتا ہے۔
سوال نمبر 6: صفتِ قدرت کے کیا معنی ہیں؟
جواب :اللہ تعالیٰ قدیر ہے اسے ہر چیز پر قدرت حاصل ہے، کوئی ممکن اس کی قدرت سے باہر نہیں، جو چاہے وہ کرے، معدوم کو موجود اور موجود کو معدوم ، فقیر کو بادشاہ اور بادشاہ کو فقیر کر دے جس چیز میں جو خاصیت یا اثر چاہے پیدا کر دے اور جب چاہے و ہ اثر نکال لے اور دوسرا خاصہ اور تاثیر پیدا کر دے۔
سوال نمبر 7: کیا اللہ تعالیٰ جھوٹ بولنے پر بھی قادر ہے؟
جواب :اللہ تعالیٰ ہر اس چیز سے جس میں عیب و نقصان ہے، پاک ہے ،یعنی عیب و نقصان کا اس میں پایا جانا محال ہے، مثلاً جھوٹ ، دغا، خیانت، ظلم، جہل، بے حیائی وغیرہ عیوب اس پر محال ہیں اور یہ کہنا کہ جھوٹ پر قدرت ہے بایں معنی کہ وہ خود جھوٹ بول سکتا ہے محال کو ممکن ٹھہرانا اور خدا کو عیبی بتانا بلکہ خدا سے انکار کرنا ہے اور کذب (جھوٹ) تو ایسا گندا، ناپاک عیب ہے جس سے تھوڑی ظاہری عزت والا بھی بچنا چاہتا ہے بلکہ بھنگی ، چمار بھی اپنی طرف اس کی نسبت سے شرماتا ہے۔ اگر وہ اللہ جل جلالہ کے ممکن ہو تو وہ بھی عیبی ، ناقص، گندی نجاست سے آلودہ ہوسکے گا، تو کیا کوئی مسلمان اپنے رب پر ایسا گمان کر سکتا ہے؟ مسلمان تو مسلمان معمولی سمجھ والا یہودی اور نصرانی بھی ایسی بات اپنے رب کی نسبت گورانہ کرے گا اور جو خدا کی طرف اس کی نسبت کرے وہ یہودیوں اور نصرانیوں سے بدتر ہے۔
سوال نمبر 8: اردہ مشیت کے کیا معنی ہیں؟
جواب :اللہ تعالیٰ مرید ہے یعنی اس میں ارادہ کی صفت پائی جاتی ہے، اس کی مشیت و ارادہ کے بغیر کچھ نہیں ہو سکتا۔ تمام چیزوں کو اپنے ارادے سے پیدا فرماتا ہے اور ان میں اپنے ارادے ہی سے تصرف فرماتا ہے، یہ نہیںکہ بے ارادہ اس سے فعل صادر ہو جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے ازلی ارادہ کے ماتحت ہی ہر چیز کا ظہور ہوتا ہے۔ اس پر کوئی چیز واجب و ضروری نہیں کہ جس کے کرنے پر مجبور ہو، مالک علی الااطلاق ہے جو چاہے کرے جو چاہے حکم دے۔
سوال نمبر 9: صفت علم کے کیا معنی ہیں؟
جواب :اللہ تعالیٰ علیم ہے یعنی اس کو صفت علم حاصل ہے اس کا علم ہر شے کو محیط ہے، ہر چیز کی اس کی خبر ہے، جو کچھ ہو رہا ہے یا ہو چکا آئندہ ہونے والا ہے، پوری تفصیل کے ساتھ ان سب کو ازل میں جانتا تھا، اب جانتا ہے اور ابدتک جانے گا۔ اشیاء بدلتی ہیں اس کا علم نہیں بدلتا، ایک ذرہ بھی اس سے پوشیدہ نہیں، اس کے علم کی کوئی انتہا نہیں، وہ غیب و شہادت سب کو یکساں جانتا ہے۔ علم ذاتی اس کا خاصہ ہے۔
سوال نمبر 10: صفت سمع وبصر سے کیا مراد ہے؟
جواب :اللہ تعالیٰ سمیع وبصیر ہے یعنی اس میں صفتِ سماعت و صفت بصارت ہے۔ ہر پست سے پست آواز تک کو سنتا ہے اور ہر باریک سے باریک کو کہ خوردبین سے محسوس نہ ہو، وہ دیکھتا ہے بلکہ اس کا دیکھنا اور سننا انھیں چیزوں پر منحصر نہیں وہ ہر موجود کو دیکھتا ہے اور ہر موجود کو سنتا ہے ۔ سمع کے معنی سننا اور بصر کے معنی دیکھنا ہے۔
سوال نمبر 11: صفت کلام سے کیا مراد ہے؟
جواب :اللہ تعالیٰ متکلم ہے یعنی اس کو کلام کرنے کی صفت حاصل ہے، جس چیز کو چاہتا ہے خبر دیتا ہے۔ انبیاء سے جب چاہتا ہے کلام کرتا ہے اور جس طرح وہ بے کان کے سنتا ہے اور بے آنکھ کے دیکھتا ہے اسی طرح وہ بغیر زبان کے بولتا ہے کہ یہ سب اجسام ہیں اور اجسام سے وہ پاک۔ اس کا کلام آواز سے پاک ہے اور مثل دیگر صفات کے اس کا کلام بھی قدیم ہے۔ تمام آسمانی کتابیں اور یہ قرآن عظیم جس کو ہم اپنی زبان سے تلاوت کرتے اور مصاحف میں لکھتے ہیں، اسی کا کلام قدیم بلاصورت ہے اور یہ ہمارا پڑھنا، لکھنا، سننا اور حفظ کرنا حادث ہے، اور جو ہم نے پڑھا، لکھا اور سنا اور جو ہم نے حفظ کیا وہ قدیم ہے۔
سوال نمبر 12: یہ سات صفات جو اوپر گزریں انھیں کیا کہتے ہیں؟
جواب :حیات، قدرت، سمع، بصر، علم ، ارادہ اور کلام ، اللہ تعالیٰ کی صفات ذاتیہ کہلاتی ہیں۔
سوال نمبر 13: تکوین و تخلیق سے کیا مراد ہے؟
جواب :تکوین و تخلیق سارے جہان کو پیدا کرنے کا نام ہے۔ اللہ تعالیٰ سارے جہان کا خالق ہے یعنی تمام عالم اسی کا پیدا کیا ہوا ہے اور آئندہ بھی ہر چیزوہی پیدا کرے گا ۔ چھوٹے سے چھوٹا ذرہ اور عالم کا مادہ ( آگ ، پانی، ہوا، خاک جنھیں اربع عناصر کہتے ہیں ) سب اسی کی مخلوق ہے۔ چیزوں کے پیدا کرنے میں وہ کسی آلہ کا محتاج نہیں، نہ اس کو کسی مدد کی ضرورت ہے۔ جس چیز کو پیدا کرنا چاہتا ہے تو اس کوکن (ہوجا) کہہ کر پیدا کر دیتا ہے۔ انسانوں کے کام اور عمل بھی سب اس کے مخلوق ہیں، ذوات ہوں خواہ افعال سب اسی کے پیدا کئے ہوئے ہیں۔
مارنا ،جلانا، صحت دینا، بیمار ڈالنا، غنی کرنا، فقیر کرنا وغیرہ صفات جن کا تعلق مخلوق سے ہیں اور جنھیں صفات اضافیہ اور صفاتِ فعیلہ بھی کہتے ہیں۔ ان سب کو صفاتِ تکوین کی تفصیل سمجھنا چاہیے۔
سوال نمبر 14: صفت رزاقیت سے کیا مراد ہے؟
جواب :اللہ تعالیٰ رزاق ہے وہی تمام ذی روح کو رزق دینے والا ہے۔ چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی مخلوق کو وہی روزی دیتا ہے، وہی ہر چیز کی پرورش کرتا ہے۔ وہی ساری کائنات کی تربیت فرماتا اور ہر چیز کو آہستہ آہستہ بتدریج اس کے کمال مقدار تک پہنچاتا ہے۔ وہ رب العالمین ہے۔ یعنی تمام عالم کا پرورش کرنے والا، حقیقۃ روزی پہنچانے والا وہی ہے۔ ملائکہ وغیرہ ہم وسیلے اور واسطے ہیں۔
سوال نمبر 15: صفات سلبیہ کس کو کہتے ہیں؟
جواب :صفات سلبیہ وہ ہیں جس سے اللہ تعالیٰ کی ذات مبرا اور پاک ہے۔ مثلاً وہ جاہل نہیں، بے اختیار وبے کس نہیں، کسی بات سے معذور و عاجز نہیں، اندھا نہیں، بہرا نہیں، گونگا نہیں، ظالم نہیں، مجسم یعنی جسم والا نہیں، زمانی و مکانی، جہت و مکان و زمان و حرکت و سکون و شکل و صورت اور تمام حوادث سے پاک ہے۔ کھانے پینے اور تمام حوائج بشری (انسانی حاجتوں) اور ہر قسم کے تغیر وتبدل ، حدوث واحتیاج سے پاک ہے،نہ وہ کسی چیز میں حلول کئے ہوئے ہے کہ کسی چیز میں سما جائے ،نہ اس میں کوئی چیز حلول کئے ہوئے کہ اس میں پیوست ہو جائے ، یونہی وہ ذات کسی کے ساتھ متحد بھی نہیں جیسے کہ برف پانی میں گھل کر ایک ہو جاتی ہے نہ وہ کسی کا باپ ہے ،نہ کسی کا بیٹا ، نہ اس کے لیے بی بی ہے ، نہ اس کا کوئی ہمسر و برابر۔
سوال نمبر 16: خدائے تعالیٰ کا دیدار ممکن ہے یا نہیں؟
جواب :دنیا کی زندگی میں اللہ عزوجل کا دیدار نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے خاص ہے اور آخرت میں ہر سنی مسلمان کے لیے ممکن بلکہ واقع ہے جس سے اہل جنت کی آنکھیں روشن ہوں گی اور وہ دیدارالٰہی سے بڑھ کر انھیں کوئی نعت و دولت پیاری نہ ہوگی۔ رہا قلبی دیدار یا خواب میں توبہ دیگر انبیاء علیہم السلام بلکہ اولیاء کے لیے بھی حاصل ہے۔ ہمارے امام اعظم رضی اللہ عنہ کو خواب میں سو بار زیارت ہوئی۔ اللہ تعالیٰ یہ دولت ہمیں بھی میسر فرمائے ۔ آمین
سوال نمبر 17: کیا اللہ تعالیٰ کو اپنے افعال میں کسی غرض یا سبب کی احتیاج ہوتی ہے؟
جواب :اللہ تعالیٰ کے ہر فعل میں کثیر حکمتیں اور مصلحتیں ہیں جن کی تفصیل وہی خوب جانتا ہے ، خواہ ہم کو معلوم ہوں یا نہ ہوں اور اس کے فعل کے لیے کوئی غرض نہیں کہ غرض اس فائدے کو کہتے ہیں جو فاعل کی طرف رجوع کرے ، اور نہ اس کے افعال علت و سبب کے محتاج ہیں، اس نے اپنی حکمت بالغہ کے مطابق ایک چیز کو دوسری چیز کے لیے سبب بنا دیا ہے۔ آنکھ دیکھتی ہے کان سنتا ہے، آگ جلاتی ہے، پانی پیاس بجھاتا ہے ، وہ چاہے تو آنکھ سنے، کان دیکھے، پانی جلائے، آگ پیاس بجھائے، نہ چاہے تو لاکھ آنکھیں ہوں، دن کو پہاڑنہ سوجھے، کروڑ آگیں ہوں اور ایک تنکے پر داغ نہ آئے۔
کس قہر کی آگ تھی جس میں ابراہیم علیہ السلام کافروں نے ڈالا، کوئی پاس بھی نہ جاسکتا تھا، اسے ارشاد ہوا، اے آگ ٹھنڈی اور سلامتی والی ہو جا ! ابراہیم پر اور وہ آگ گلزار بن گئی۔