سوال نمبر :1:روزہ نہ رکھنے کی کتنی صورتوں میں اجازت ہے؟
جواب :سفر، حمل، بچہ کا دودھ پلانا، مرض، بڑھاپا، خوف ہلاکت، اکراہ، نقصان عقل اور جہاد، یہ سب روزہ نہ نہ رکھنے کے لیے عذر ہیں کہ اگر ان وجوہ میں سے کسی وجہ سے کوئی روزہ نہ رکھے تو گناہگار نہیں۔ (ردالمحتار )
سوال نمبر :2:سفر سے کیا مراد ہے؟
جواب :سفر سے مراد، سفر شرعی ہے یعنی اتنی دور جانے کے ارادہ سے نکلے کہ یہاں سے وہاں تک تین دن کی مسافت ہو (درمختار) اگرچہ وہ سفر مثلاً ہوائی جہاز سے مختصر وقت میں پورا ہو جائے۔ حالت سفر میں خود اس مسافر کو اور اس کے ساتھ والے کو وقت میں پورا ہو جائے۔ حالت سفر میں خود اس مسافرا ور اس کے ساتھ والے کو روزہ رکھنے میں ضرور نہ پہنچے۔ تو روزہ رکھنا سفر میں بہتر ہے۔ ورنہ رکھنا بہتر۔ (درمختار)
سوال نمبر :3:دن میں کسی وقت سفر کا ارادہ ہو تو اس دن کا روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے یا نہیں؟
جواب :مثلاً آج کے دن کسی وقت سفر کے لیے نکلنا ہے تو یہ روزہ افطار کرنے کے لیے آج کا سفر عذر نہیں۔ اسے آج کا روزہ رکھنا چاہیے۔ البتہ اگر آج کا روزہ رکھ کر سفر میں توڑ دے گا تو کفارہ لازم نہ آئے گا مگر گناہگار ہوگا۔ اور روزہ رکھا تھا مگر سفر کرنے سے پہلے تو ڑدیا ۔ پھر سفر کے لیے نکلا تو کفارہ بھی لازم ہے۔ یوں ہی اگر دن مین سفر کیا اور مکان پر کوئی چیز بھول گیا تھا اسے لینے واپس آیا اور مکان پر آکر روزہ توڑ ڈالا تو بھی کفارہ واجب ہے۔ (عالمگیری)
سوال نمبر :4:مسافر، دوپہر سے پہلے مقیم ہو جائے تو اب کیا حکم ہے؟
جواب :مسافر نے ضحوۃ کبریٰ سے پیشترکہ اس وقت تک روزہ کی نیت ضروری ہے اگر اقامت کی نیت کر لی اور ابھی کچھ کھایا پیا نہ تھا تو اس پر لازم ہے کہ اب روزے کی نیت کرے اور روزے رکھے۔ اس لیے کہ یہ سفر وقت نیت سے پہلے ہی ختم ہوگیا۔ (درمختار، عالمگیری وغیرہ)
سوال نمبر :5:مسافر ضحوئہ کبریٰ کے بعد وطن واپس آجائے تو اب اس کے لیے کیا حکم ہے؟
جواب :مسافر نے نیت اقامت کر لی یا وطن آگیا۔ اور اس نے اب تک کچھ کھایا پیا نہ تھا۔ تو روزہ تو نہیں ہوسکتا کہ نیت کا وقت نہیں مگر اسے لازم ہے کہ جو کچھ دن باقی رہ گیا ہے اسے روزہ داروں کی طرح گزارے۔ (درمختار وغیرہ)
سوال نمبر :6:مرض کی وجہ سے کس وقت روزہ نہ رکھنے کی رخصت ہے؟
جواب :مریض کو مرض بڑھ جانے یا دیر میں اچھا ہونے یا تندرست کو بیمار ہو جانے کا غالب گمان ہو۔ یا خادم و خادمہ کو ناقابل برداشت ضعف کا غالب گمان ہو تو ان سب کو اجازت ہے کہ اس دن روزہ نہ رکھیں۔ (جوہرہ ، درمختار)
سوال نمبر :7:بیماری بڑھ جانے کا وہم ہو تو روزہ چھوڑ سکتا ہے یا نہیں؟
جواب :روزہ چھوڑنے کے لیے محض وہم کافی نہیں بلکہ ان صورتوں میں غالب گمان کی قید ہے اور غالب گمان کی تین صورتیں ہیں:
(۱) اس کی ظاہری نشانی پائی جاتی ہے۔
(۲) اس شخص کا ذاتی تجربہ ہے۔
(۳) کسی مسلمان ، تجربہ کار طبیب و معالج نے جو کہ فسق و فجور میں مبتلا نہ ہو۔ کہہ دیا ہو کہ روزہ رکھنے میں بیماری بڑھ جانے وغیرہ کا خطرہ اندیشہ ہے۔
اور اگر نہ کوئی علامت ہو، نہ تجربہ، نہ اس قسم کے طبیب نے اسے بتایا بلکہ کسی کافر یا فاسق طبیب و ڈاکٹر کے کہنے سے افطار کر لیا یعنی روزہ توڑد یا تو کفارہ لازم آئے گا (ردالمحتار) اور چھوڑ دیا تو گناہگار ہوگا۔ آج کل کے معا لجین میں یہ وبا پائی جاتی ہے کہ ذرا ذرا سی بیماری میں روزہ سے منع کر دیتے ہیں ۔ اتنی بھی تمیز نہیں رکھتے کہ کس مرض میں روزہ مضر ہے کس میں نہیں۔ ایسوں کا کہنا کچھ قابل اعتبار نہیں۔ (بہار شریعت)
سوال نمبر :8:روزہ میں حیض و نفاس شروع ہو جائے تو کیا حکم ہے؟
جواب :روزے کی حالت میں حیض و نفاس شروع ہو گیا تو وہ روزہ جاتا رہا۔ اس کی قضا رکھے۔ روزہ فرض تھا تو اس کی قضا فرض ہے اور نفل تھا تو قضا واجب ۔ (عامۂ کتب )
سوال نمبر :9:حیض و نفاس والی دن میں پاک ہوگئی اور روزہ کی نیت کرلی تو روزہ ہو ا یا نہیں؟
جواب :عورت کا حیض و نفاس سے خالی ہونا روزہ کے لیے شرط ہے۔ لہٰذا حیض و نفاس والی عورت صبح صادق کے بعد پاک ہوگئی اگرچہ ضحوئہ کبریٰ سے پیشتر اور روزہ کی نیت کر لی توآج کا روزہ نہ ہوا۔ نہ فرض نہ نفل۔ (درمختار)
سوال نمبر :10:حیض و نفاس سے پاک ہوجائے تو عورت دن کس طرح گزارے؟
جواب : حیض و نفاس والی عورت پاک ہوگئی تو جو کچھ دن باقی رہ گیا ہے اسے روزے کے مثل گزارنا واجب ہے۔
سوال نمبر :11:صبح صادق سے قبل عورت پاک ہو جائے تو غسل کے بغیر روزہ کی نیت کر سکتی ہے یا نہیں؟
جواب : اگر پورے دس دن پر پاک ہوئی اور اتنا وقت رات کا باقی نہیں کہ ایک بار اللہ اکبر کہہ لے تو اس دن کا روزہ اس پر واجب ہے۔ لہٰذا نیت کرے اور بعد میں جلد از جلد غسل کرے۔ اور دس دن سے کم میں پاک ہوئی اور اتنا وقت ہے کہ صبح صادق سے پہلے نہا کر کپڑے پہن کر اللہ اکبر کہہ سکتی ہے۔ تو روزہ فرض ہے ۔ اگر نہالے تو بہتر ہے ورنہ بے نہائے نیت کرے اور صبح کو نہالے۔ اور جو اتنا وقت بھی نہیں تو روزہ فرض نہ ہوا۔ البتہ روزداروں کی طرح رہنا اس پر واجب ہے۔ کوئی بات ایسی جو روزے کے خلاف ہو۔ مثلاً کھانا، پینا حرام ہے۔ (عالمگیری وغیرہ)
سوال نمبر :12:بڑی عمر کے بوڑھے مردوں اور عورتوں کے لیے رخصت کا حکم کس وقت ہے؟
جواب : ایسے بوڑھے مر د یا بوڑھی عورتیں جنہیں شریعت میں شیخ فانی کہا جاتا ہے۔ یعنی وہ بوڑھے جن کی عمر اب ایسی ہوگئی کہ اب روز بروز کمزور ہی ہوتا جائے گا۔ جب وہ روزہ رکھنے سے عاجز ہو یعنی نہ اب رکھ سکتا ہے نہ آئندہ اس میں اتنی طاقت آنے کی امید ہے کہ روزہ رکھ سکے گا۔ تو اب اسے روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے۔ البتہ اسے حکم ہے کہ ہرروزہ کے بدلے میں فدیہ دے۔ (درمختار وغیرہ)
سوال نمبر :13:شیخ فانی گرمیوں کی بجائے سردیوں میں روزہ رکھے یا فدیہ دے؟
جواب : اگر ایسا بوڑھا یا بوڑھی ، گرمیوں میں بوجھ گرمی کے روزہ نہیں رکھ سکتا مگر جاڑوں میں رکھ سکے گا تو اب روزے افطار کرے یعنی چھوڑ دے۔ البتہ ان روزوں کے بدلے میں روزے جاڑوں میں رکھنا فرض ہے۔ ر وزوں کا کفارہ یہ نہیں دے سکتے۔ (درمختار وغیرہ)
سوال نمبر :14:کمزوری کے باعث جو روزہ نہ رکھ سکے۔ اس کے لیے کیا حکم ہے؟
جواب :کمزوری یعنی روزہ رکھنے کی طاقت نہ ہونا ایک تو واقعی ہوتا ہے اورایک کم ہمتی سے ہوتا ہے۔ کم ہمتی کا کچھ اعتبار نہیں۔ اکثر اوقات شیطان دل میںڈالتا ہے کہ ہم سے یہ کام ہر گز نہ ہو سکے گا۔ اور کریں گے تو مر جائیں گے۔ پھر جب خدا پر بھروسہ کرکے کیا جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ ادا کرادیتا ہے۔ کچھ بھی نقصان نہیں پہنچتا۔ معلوم ہو اکہ وہ شیطان کا دھوکا تھا۔ ۷۵برس کی عمر میں بہت لوگ روزے رکھتے ہیں۔ ہاں ایسے لوگ بھی ہوسکتے ہیں۔ کہ کمزوری کے باعث ستر برس ہی کی عمر میں روزنہ رکھ سکیں۔ تو شیطان کے وسوسوں سے بچ کر خوب صحیح طور پر جانچنا چاہیے۔ ایک بات تو یہ ہوئی۔
دوسری بات یہ ہے کہ ان میں بعض کو گرمیوں میں روزہ رکھنے کی طاقت واقعی نہیں ہوتی۔ مگر جاڑوں میں رکھ سکتے ہیں۔ یہ بھی کفارہ نہیں دے سکتے۔ بلکہ گرمیوں میں قضا کر کے جاڑوں میں روزے رکھنا ان پر فرض ہے۔ تیسری بات یہ ہے کہ ان میں بعض لگاتار مہینے بھر کے روزے نہیں رکھ سکتے مگر ایک دو دن بیچ میںناغہ کرکے رکھ سکتے ہیںتو جتنے رکھ سکیں اتنے رکھنا فرض ہے ۔ جتنے قضا ہو جائیں جاڑوں میں رکھ لیں۔
چوتھی بات یہ ہے کہ جس جوان یا بوڑھے کو کسی بیماری کے سبب ایسا ضعف (کمزوری) ہو کہ روزہ نہیں رکھ سکتے۔ انہیں بھی کفارہ (فدیہ) دینے کی اجازت نہیں۔ بلکہ بیماری جانے کا انتظار کریں۔ اگر قبل شفا موت آجائے تو اس وقت کفارہ کی وصیت کر دیں۔
غرض یہ ہے کہ روزہ کا فدیہ اس وقت ہے کہ روزہ نہ گرمی میں رکھ سکیں نہ جاڑے میں نہ لگا تار نہ متفرق۔ اور جس عذر کے سبب طاقت نہ ہو اس عذر کے جانے کی امید نہ ہو جیسے وہ بوڑھا کہ بڑھاپے نے اسے ضعیف کر دیا کہ گنڈے دار (متواتر) روزے متفرق کرکے جاڑے میں بھی نہیں رکھ سکتا تو بڑھاپا تو جانے کی چیز نہیں ایسے شخص کو فدیہ کا حکم ہے۔
بعض جاہلوں نے یہ خیال کر لیا ہے کہ روز ہ کا فدیہ ہر شخص کے لیے جائز ہے جب کہ روزے میں اسے تکلیف ہو۔ ایسا ہر گز نہیں۔ فدیہ صرف شیخ فانی کے لیے رکھا گیا ہے جیسا کہ ابھی اوپر تفصیل سے گزرا ۔ (فتاویٰ رضویہ وغیرہ)
سوال نمبر :15:بھوک پیاس سے آدمی نڈھال ہو جائے تو اس کے لیے کیا حکم ہے؟
جواب :بھوک پیاس ایسی ہو کہ ہلاک کا خوب صحیح ، یا نقصان عقل یا حواس کے جاتے رہنے کا اندیشہ ہو تو نہ رکھے۔ اور اس پر روزہ توڑنے کا کفارہ بھی نہیں۔ صرف قضا ہے یعنی ہر روزہ کے بدلے ایک روزہ ۔ (عالمگیری وغیرہ)
سوال نمبر :16:جبرو اکراہ کی صورت میں روزہ توڑنے کی اجازت ہے یا نہیں؟
جواب :جبر واکراہ میں یعنی جب کہ روزہ دار کو روزہ نہ توڑنے پر عضو کے تلف ہو جانے یا ضرب شدید کی دھمکی یا جان سے ماردینے کی دھمکی دی جائے اور سمجھتا ہے کہ اگر میں نے روزہ نہ توڑا تو جو یہ کہتے ہیں وہ کر گزریں گے تو حکم ہے کہ روزہ توڑدے اور نہ توڑا یہاں تک کہ قتل کر ڈالا گیا تو گناہگار ہو ا کہ ان صورتوں میں اس کے لیے روزہ توڑنے یا معاذ اللہ شراب یا خون پینے یا مردار یا سو ر کا گوشت کھانے کی شرعاً اجازت ہے۔ جس طرح بھوک کی شدت اور اضطرار کی حالت میں یہ چیزیں مباح ہیں۔ البتہ یہ حکم روزہ دار مسافر یا مریض وغیرہ ایسے لوگوں کے لیے ہے جن کو روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے۔ مگر انھوں نے روزہ رکھ لیا اور اب جبر واکراہ کی صورت درپیش آئی۔ (ردالمحتار ، فتح القدیر وغیرہ)
سوال نمبر :17:روزہ دار مقیم ہو تو جبرواکراہ کی صورت میں اس کے لیے کیا حکم ہے؟
جواب :روزہ دار اگر مقیم یا تندرست ہو اور اسے روزہ توڑ نے پر مجبور کیا گیا تو اسے اختیار ہے چاہیے تو روزہ توڑ دے مگر افضل یہ ہے کہ افطار نہ کرے۔ اور ان کی اذیت پر صبر کرے۔ یہاںتک کہ اگر اسی حالت میں مارا گیا تو اسے ثواب ملے گا۔ (ردالمحتار وغیرہ)
سوال نمبر :18:روزہ کی حالت میں سانپ کاٹ لے تو روزہ توڑ دے یا نہیں؟
جواب :روزہ دار کو سانپ نے کاٹ لیا اور جان کا اندیشہ ہو تو اس صورت میں حکم ہے کہ وہ روزہ توڑ دے۔ (ردالمحتار )
سوال نمبر :19:جن لوگوں کو عذر کے سبب روزہ توڑنے کی اجازت ہے ان پر قضا فرض ہے یا نہیں؟
جواب :جن لوگوں نے عذر شرعی کی صورت میں روزہ توڑ ان پر فرض ہے کہ ان روزوں کی قضا رکھیں۔ (درمختار وغیرہ)
سوال نمبر :20:قضاروزوں میں ترتیب فرض ہے یا نہیں؟
جواب :قضا روزوں میں ترتیب فرض نہیں لہٰذا اگر ان روزوں سے پہلے نفل روزے رکھے تو یہ نفلی روزے ہو گئے ۔ مگر حکم یہ ہے کہ عذر جانے کے بعد دوسرے رمضان کے آنے سے پہلے قضا رکھ لیں۔ حدیث شریف میں فرمایا ’’جس پر اگلے رمضان کی قضا باقی ہے اور وہ نہ رکھے تو اس کے اس رمضان کے روزے قبول نہ ہوں گے‘‘۔ اور اگر روزے نہ رکھے اور دوسرا رمضان آگیا تو اب پہلے اس رمضان کے روزے رکھ لے قضا نہ رکھے۔ (درمختار)
سوال نمبر :21:فدیہ دینے کے بعد روزہ رکھنے کی طاقت آگئی تو اب کیا حکم ہے؟
جواب :اگر فدیہ دینے کے بعد اتنی طاقت آگئی کہ آدمی روزے رکھ سکتا ہے تو جو فدیہ دے چکا ۔ وہ صدقہ نفل ہو گیا۔ ثواب پائے گا۔ لیکن اب حکم ہے کہ ان روزوں کی قضا رکھے۔ (عالمگیری)
سوال نمبر :22:بوڑھے ماں باپ کی بجائے اس کی اولاد روزے رکھ سکتی ہے یا نہیں؟
جواب :ایک شخص کی طرف سے دوسرا شخص روزہ نہیں رکھ سکتا۔ (عامہ ء کتب)
سوال نمبر :23فدیہ کی مقدار کیا ہے؟
جواب :شیخ فانی پر ہر روزے کے بدلے میں جو فدیہ واجب ہے وہ یہ ہے کہ ہر روزے کے بدلے میں صدقہ فطر کی مقدار مسکین کو دے دے یا دونوں وقت اسے پیٹ بھر کھانا کھلاوے۔ (درمختار وغیرہ)
سوال نمبر :24:روزہ کا فدیہ کب اور کس طرح دے سکتے ہیں؟
جواب :فدیہ میں یہ اختیار ہے کہ شروع رمضان ہی میں پورے رمضان کا ایک دم فدیہ دے دے یا آخر میں دے۔ اور اس میں تملیک شرط نہیں ۔ بلکہ اباحت بھی کافی ہے کہ مسکین کو دونوں وقت پیٹ بھر کھانا کھلا دے۔ اور یہ بھی ضروری نہیں کہ جتنے فدیے ہوں اتنے ہی مساکین کو دے۔ بلکہ ایک مسکین کو کئی فدیے دئیے جاسکتے ہیں۔ (درمختار وغیرہ)
سوال نمبر :25:بڑھاپے کی وجہ سے کفارے کے روزے نہ رکھ سکے تو کیا حکم ہے؟
جواب :قسم یا قتل کے کفارہ کا اس پر روزہ ہے اور بڑھاپے کی وجہ سے روزہ نہیں رکھ سکتا تو اس روزہ کا فدیہ نہیں دے سکتا کہ یہ روزے خود کھانا کھلانے کا بدل میں اور بدل کا بدل نہیں۔ اور روزے توڑنے یا ظہار کا اس پر کفارہ ہے تو اگر روزے نہ رکھ سکے۔ ساٹھ مسکینون کو کھانا کھلادے ۔ اس لیے کہ یہ فدیہ ، روزوں کے عوض ، قرآن سے ثابت ہے۔ (عالمگیری،ردالمحتار وغیرہ)
سوال نمبر :26ہمیشہ روزہ رکھنے کی نذر ماننے والا، اگر روزہ نہ رکھ سکے تو اسے روزہ چھوڑنے اور فدیہ دینے کی اجازت ہے یا نہیں؟
جواب : اگر کسی نے ہمیشہ روزہ رکھنے کی منت مانی لیکن برابر روزے رکھے تو کوئی کام نہیں کر سکتا۔ جس سے بسر اوقات ہو تو اسے بقدر ضرورت افطار (روزہ چھوڑنے) کی اجازت ہے۔ مگر حکم ہے کہ وہ ہر روزے کے بدلے میں فدیہ دے۔ اور اس کی بھی قوت نہ ہو تو استغفار کرے۔ (ردالمحتار )
سوال نمبر :27:جن لوگوں کو روزہ چھوڑنے کی شرعاً اجازت ہے اگر وہ بعد میں روزہ نہ رکھیں تو اب ان کے لیے حکم شرعی کیا ہے؟
جواب :مثلاً مریض تندروست ہو گیا یا مسافر سفر سے واپس آگیا اور اس نے فوت شدہ روزوں کے بقدر وقت پالیا تو ان پر ان تمام روزوں کی قضالازم ہے۔ جن کا وقت انہیں ملا اور وقت پالینے کے باوجود روزے نہ رکھے اور موت آگئی تو ان پر واجب ہے کہ ان روزوں کے فدیے کی وصیت کر جائیں۔ (عالمگیری)
سوال نمبر :28:ایسے لوگ اگر اسی عذر میں مر جائیں تو اب کیا حکم ہے؟
جواب :اگریہ لوگ اپنے اسی عذر میں مر گئے اتنا موقع نہ ملا کہ قضا رکھتے تو ان پر ان روزوں کی قضا واجب نہ ہوئی۔ یوں ہی ان پر یہ واجب نہیں کہ فدیہ کی وصیت کر جائیں پھر بھی اگر وصیت کی کہ ان روزوں کا فدیہ دے دیا جائے تو وصیت صحیح ہو جائے گی۔ اور تہائی مال میں جاری ہوگئی۔ یعنی اس کے تہائی ترکہ میں سے فدیہ دیا جائے گا۔ اور اگر وصیت نہ کی بلکہ ولی نے اپنی طرف سے فدیہ دے دیا تو بھی جائز ہے۔ (درمختار، عالمگیری)
سوال نمبر29:تہائی مال میں فدیہ کی وصیت جاری ہونے کی کوئی شرط ہے یا نہیں ؟
جواب :تہائی مال میں فدیہ کی وصیت اس وقت جاری ہوگی۔ جب اس میت کے وارث بھی ہوں گے اور اگر وارث نہ ہوں اور سارے مال سے فدیہ ادا ہوتا ہو تو سب فدیہ میں صرف کر دینا لازم ہے۔ یوں ہی اگر وارث صر ف شوہر یا زوجہ ہے تو تہائی نکالنے کے بعد ان کا حق دیا جائے اس کے بعد جو کچھ بچے اگر فدیہ میں صرف ہو سکتا ہے تو صرف کر دیا جائیگا۔ (ردالمحتار وغیرہ)
سوال نمبر :30:فدیہ کی وصیت کتنے روزوں کے حق میں ہونی چاہیے؟
جواب :وصیت کرنا صرف اتنے ہیی روزوں کے حق میں واجب ہے۔ جن پر قادر ہوا تھا اور نہ رکھے۔ مثلاً سفر، مرض وغیرہ میں دس روز سے قضا ہوئے تھے۔ اور عذار جانے کے بعد (کہ مسافر وطن واپس آگیا، مریض تندرست ہوگیا) پانچ پر قادر ہوا تھا کہ انتقال ہو گیا تو پانچ ہی کی وصیت واجب ہے۔ (درمختار)
سوال نمبر 31:نماز اور روزے کے فدیہ کی مقدار میں کچھ کمی بیشی ہے یا نہیں؟
جواب :جس طرح روزہ کا فدیہ بمقدار صدقہ فطر ہے۔ یوں ہی ہر فرض ووتر کے بدلے نصف صاح گیہوں یا ایک صاع جو یا ان کی قیمت ہے۔ (عامۂ کتب)
سوال نمبر :32:فدیہ کس قسم کے لوگوں کو دینا چاہیے؟
جواب :فدیہ کے مستحق وہی لوگ ہیں جو زکوٰۃ و صدقہ فطر کے مستحق ہیں۔ فقیر محتاج مسلمان کہ نہ ہاشمی ہوں نہ اس کی اولاد نہ یہ ان کی اولاد ۔ (عامۂ کتب)