جواب :عالم میںجو کچھ برایا بھلا ہوتا ہے اور بندے جو کچھ نیکی یا بدی کے کام کرتے ہیں، وہ سب اللہ عزوجل کے علم ازلی کے مطابق ہوتا ہے، ہر بھلائی برائی اس نے اپنے علم ازلی کے موافق مقدر فرماد ی ہے یعنی جیسا ہونے والاتھا اور جو جیسا کرنے والا تھا اللہ نے اسے اپنے علم سے جانا اور وہی لکھ لیا تو وہ سب کچھ اللہ کے علم میں ہے اور اس کے پاس لکھا ہوا ۔ اسی کا نام تقدیر ہے۔
سوال نمبر 2: کیا تقدیر کے موافق کام کرنے پر آدمی مجبور ہے؟
جواب :اللہ عزوجل نے بندوں کو فرمایا، انھیں کان، آنکھ ، ہاتھ، پاؤں ، زبان وغیرہ عطا فرمائے اور انھیں کام میںلانے کا طریقہ الہام فرمایا پھر اعلیٰ درجے کے شریف جوہر یعنی عقل سے ممتاز فرمایا جس نے تمام حیوانات پر انسان کا مرتبہ بڑھایا۔ پھر لاکھوں باتیں ہیں جن کا عقل ادراک نہ کر سکتی تھی لہٰذاانبیاء بھیج کر کتابیں اتار کر زراذرا سی بات جتا دی اور کسی کو عذر کی کوئی جگہ باقی نہ چھوڑی۔ آدمی جس طرح نہ آپ سے آپ بن سکتا تھا نہ اپنے لیے کان، ہاتھ، پاؤں، زبان وغیرہ بنا سکتا تھا یونہی اپنے لیے طاقت ،قوت، ارادہ، اختیار بھی نہیں بنا سکتا، سب کچھ اسی نے دیا اور اسی نے بنایا۔ انسان کو ایک نوع اختیار دیا کہ ایک کام چاہے کرے چاہے نہ کرے، تو اس ارادہ اختیار کے پیدا ہونے سے آدمی صاحبِ ارادہ وصاحب اختیار ہوا نہ کہ مضطر ، مجبور، ناچار، آدمی اور پتھر کی حرکت میں فرق کیا ہے، یہی کہ وہ ارادہ اختیار نہیں رکھتا اور آدمی میں اللہ تعالیٰ نے یہ صفت پید اکی تو یہ کیسی الٹی مت ہے کہ جس صفت کے پیدا ہونے نے انسان کو پتھر سے ممتاز کیا۔ اسی کی پیدائش کو اپنے پتھر ہو جانے کا سبب سمجھے اور دیگر جمادات کی طرح اپنے آپ کو بے حس و حرکت اور مجبور جانے۔
سوال نمبر 3: آدمی جب مختار ہے تو اعمال کی بازپرس کس بنا پر ہوگی؟
جواب :یہ ارادہ و اختیار جس کا انسان میں پایا جانا روشن اور بدیہی امر ہے قطعاً یقینا اللہ عزوجل ہی کا پیدا کیا ہوا ہے، اس نے ہم میں اررادہ واختیار پیدا کیا اس سے ہم اس کی عطا کے لائق مختار و صاحب اختیار ہوئے۔ یہ ارادہ و اختیار ہماری اپنی ذات سے نہیں تو ہم ’’مختارکردہ‘‘ ہوئے ’’خود مختار‘‘ نہ ہوئے کہ شتر بے مہار بنے پھریں اور بندہ کی یہ شان بھی نہیں کہ خود مختار ہو سکے۔ بس یہی ارادہ اور یہی اختیار جو ہر شخص اپنے نفس میںدیکھ رہا ہے، عقل کے ساتھ اس کا پایا جانا یہی دنیا میں شریعت کے احکام کا مدار ہے اور اسی نباء پر آخرت میں جز و سزا او ر ثواب و عذاب اور اعمال کی پرسش و حساب ہے۔ جزا اوسزا کے لیے جتنا اختیار چاہے و ہ بندے کو حاصل ہے۔
اؒلغرض اللہ تعالیٰ نے آدمی کو مثل پتھر او ر دیگر جمادات کے بے حس و حرکت پیدا نہیں کیا بلکہ اس کو ایک نوع اخیتار دیا ہے اور اس کے ساتھ عقل بھی دی ہے کہ بھلے برے اور نفع و نقصان کو پہچان سکے اور ہر قسم کے سامان اور اسباب مہیا فرما دئیے ہیں کہ جب کوئی کام کرنا چاہتا ہے اسی قسم کے سامان مہیا ہو جاتے ہیں اور اسی بناء پر اس سے مواخذ ہ ہے اپنے آپ کو بالکل مجبور یا بالکل مختار سمجھنا ، دونوں گمراہی ہیں۔
سوال نمبر 4: کسی امر کی تدبیر کرنا تقدیر کے خلاف تو نہیں؟
جواب :دنیا عالم اسباب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی حکومت بالغہ سے ایک چیز کو دوسری چیز کے لیے سبب بنا دیا ہے اور سنت الٰہی یوں جاری ہے کہ سبب پایا جائے تو مسبب (یعنی وہ دوسری چیز جس کے لیے یہ سبب ہے) پیدا ہو اور انھیں اسباب کو عمل میں لانا اور انھیں کسب فعل کا زریعہ بنانا تدبیر ہے تو تدبیر منافی تقدیر نہیں بلکہ تقدیر الٰہی کے موافق ہے۔ جس طرح تقدیر کو بھول کر تدبیر پر پھولنا اور اسی پر اعتماد کر بیٹھنا کفارکی خصلت ہے یونہی تدبیر کو محض عبث و فضول اور مہمل بنانا کھلے گمراہ یا سچے مجنون کا کام ہے۔ انبیاء کرام سے زیادہ تقدیر الٰہی پر کس کا ایما ن ہوگا؟ پھر وہ بھی ہمیشہ تدبیر فرماتے اور اس کی راہیں بتاتے رہے۔ حضرت داؤد علیہ السلام کازر ہیں بنانا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کا دس برس شعیب علیہ السلام کی بکریاں اجرت پر چرانا قرآن کریم میں مذکورہے۔
سوال نمبر 5: تقدیر کا لکھا ہوا بدل سکتا ہے یا نہیں؟
جواب :اصل کتاب لوحِ محفوظ میں جو کچھ لکھا ہے اور جسے قضائے مبرم حقیقی کہتے ہیں، اس کی تبدیلی یا ناممکن ہے وہ نہیں بدلتا، اکابر محبوبانِ خدا اگر اتفاقاً اس بارے میں کچھ عرض کرتے ہیں تو انھیں اس خیال سے واپس فرما دیا جاتا ہے ، اور فرشتوں کے صحیفوں اور لوح محفوظ کے پٹھوں میں جو احکام ہیں۔ (جنہیں قضائے، معلق اور قضائے مبرم غیر حقیقی بھی کہتے ہیں)۔ وہ اللہ عزوجل کے کرم سے مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت سے اپنی یا اولیاء کرام کی دعاؤں کی برکت سے والدین کی خدمت اور صلہ رحم وغیرہ سے زیادت و برکت کی جانب بدل جاتے ہیں اور گناہ و ظلم و نافرمانی والدین اور قطع رحم وغیرہ سے دوسری طرف تبدیل ہو جاتے ہیں مثلا ً فرشتوں کے صحیفوں میں زید کی عمر ساٹھ برس تھی اس نے سرکشی کی بیس برس پہلے ہی اس کی موت کا حکم آگیا یا نیکی کی، بیس برس اور زندگی کا حکم فرمایا گیا۔ یہ تقدیر میں تبدیل ہوئی ، لیکن علم الٰہی اور لوح محفوظ میں وہی چالیس یا اسی سال لکھے تھے اور ان کے مطابق ہونا لازم ہے۔
سوال نمبر 6: کسی برائی کے متعلق یہ کہنا کہ تقدیر میں لکھی تھی، کیسا ہے؟
جواب :برا کام کرکے تقدیر کی طرف نسبت کرنا اور مشیت الٰہی کے حوالہ کرنا بہت بری بات ہے بلکہ حکم یہ ہے کہ جو اچھا کام کرے اسے من جانب اللہ کہے اور جو برائی سر زد ہو اس کو شامتِ نفس تصور کرے۔
سوال نمبر 7: تقدیری امور میں بحث کرنا کیسا ہے؟
جواب :تقدیری امور یعنی قضاء وقدر کے مسائل عام عقلوں میں نہیں آسکتے۔ ان میں زیادہ تر غور و فکر کرنا یا انھیں کسی مجلس میں زریعہ بحث بنا لینا ہلاکت و نامرادی کا سبب ہے۔ صدیق و فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہما اس مسئلہ پر بحث کرنے سے منع فرما گئے۔ ماؤشماکس گنتی میں ہیں۔ عقیدئہ اہل سنت بس یہی ہے کہ انسان نہ پتھر کی طرح مجبور محض ہے، نہ خود مختار بلکہ ان دونوں کے بیچ میں ایک حالت ہے۔ تقدیر ایک گہرے سمندر کی مانند ہے۔ جس کی تہہ تک کسی کی رسائی نہیں ۔ یہ ایک تاریک راستہ ہے جس سے گزرنے کی کوئی راہ نہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کا ایک راز ہے جس پر انسان کی عقل کو دسترس نہیں۔
سوال نمبر 8: تقدیر کسے کہتے ہیں؟
جواب :دنیا میں جو کچھ ہوتا ہے اور بندے جو کچھ کرتے ہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے علم ازلی سے اسے جانا اور لکھ دیا، اسی کا نام تقدیر ہے۔
سوال نمبر 9: کیا تقدیر کے موافق کا م کرنے پر آدمی مجبور ہوتا ہے؟
جواب :نہیں ، یہ بات نہیں کہ جیسا اس نے لکھ دیا ویسا ہم کو کرنا پڑتا ہے، بلکہ جیسا ہم کرنے والے تھے ویسا اس نے لکھ دیا ویسا ہم کو کرنا پڑتا ہے، بلکہ جیسا ہم کرنے والے تھے ویسا اس نے لکھ دیا، اس کے علم یا لکھ دینے نے کسی کو مجبور نہیں کر دیا۔ اللہ تعالیٰ نے بندے کو اختیار دیا ہے، ایک کام چاہے کرے چاہے نہ کرے۔ اس کے ساتھ ہی عقل بھی دی ہے کہ بھلے برے ۔ نفع نقصان کو پہچان سکے۔ آدمی پتھر کی طرح بے حس تو نہیں ہے۔
سوال نمبر 10: تقدیر کا انکار کرنے والے کون ہیں؟
جواب : تقدیرکا انکار کرنے والوں کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس امت کا مجوسی بتایا ہے۔