سوال نمبر :1:روزہ کے لیے سحری کھانا فرض ہے یا سنت؟ جواب :سحری کھانا نہ فرض ہے نہ سنت موکدہ کہ سحری نہ کھائے تو ترک سنت کا وبال اس پر پڑے بلکہ مستحب ہے اور باعث بر کت بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ تین چیزوں میں بڑی برکت ہے۔ جماعت اور ثرید اور سحری میں اور ایک حدیث شریف میں ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے سحری کھانے والوں پر درود بھیجتے ہیں۔ (عامۂ کتب) سوال نمبر :2:سحری کا وقت مستحب کیا ہے؟ جواب :سحری میں تاخیر مستحب و مسنون ہے۔ صحیح حدیث شریف میں ہے کہ میری امت ہمیشہ خیر سے رہے گی۔ جب تک افطار میں جلدی اور سحری میں دیر کرے گی۔ اور تاخیر سحری کے معنی یہ ہیں کہ اس وقت تک کھائے جب تک طلوع فجر کا ظن غالب نہ ہو۔ (درمختار وغیرہ) اور اتنی تاخیر مکروہ ہے کہ صبح ہو جانے کا شک ہو جائے۔ (عالمگیری)سوال نمبر :3:سحری کا بالکل چھوڑ دینا کیسا ہے؟ جواب :سحری بالکل نہ کھانا حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے دائمی فعل کے بھی خلاف ہے اور حکم نبوی کی بھی اس ترک میں خلاف ورزی ہے۔
مسلم و ابوداؤد میں ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ ہمارے اوراہل کتاب کے روزوں میں فرق سحری کا لقمہ ہے۔ اس لیے کم از کم ایک لقمہ کھالے یا ایک گھونٹ پانی ہی پی لے تاکہ روزہ مطابق سنت نبوی ہو۔ حدیث شریف میں ہے۔ کہ سحری کل کی کل برکت ہے اسے نہ چھوڑنا اگرچہ ایک گھونٹ پانی ہی پی لے ۔(امام احمد)
سوال نمبر :4:سحری شکم سیر ہو کر کھائے یا مختصر؟ جواب :اتنا کھانا کہ طبیعت مضمحل رہے اور دن میں کٹھی ڈکاریں آتی رہیں یوں بھی کوئی پسندیدہ بات نہیں۔ اور پھر روزہ کے مقصود کے برخلاف بھی ہے۔ روزہ کا مقصود شہوات نفسانیہ کو روزہ کی گرمی سے توڑنا ہے اور جب خوب پیٹ بھر کھا یا تو یہ نفس کی خدمت اور اس کی پرورش ہوئی۔ مشقت کا ثواب تو یوں بھی گیا اور غریبوں ، مسکینوں کی بھوک و پیاس کا احساس اور ان کے ساتھ ہمددری و خیر خواہی کے جذبات کا بیدار ہونا ، یہ بھی حاصل نہ ہوا۔ لہٰذا نہ شکم سیر ہو کر کھائے نہ اتنا مختصر کہ دن بھر خوردونوش ہی کی طرف دھیان رہے۔ راہ اعتدال اختیار کرے اور بقدرکفایت کھائے۔ (طحطاوی وغیرہ)سوال نمبر :5:سحری میں مرغ کی اذان کا اعتبار ہے یا نہیں؟جواب :سحری کے وقت مرغ کی اذان کا اعتبار نہیں۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ صبح سے بہت پہلے مرغ اذان شروع کر دیتے ہیں۔ حالانکہ اس وقت صبح ہونے میں بہت وقت باقی رہتا ہے۔ یوں ہی بول چال سن کر اور روشنی دیکھ کر بولنے لگتے ہیں۔ (بہار شریعت،ردالمحتار)سوال نمبر :6:تارے دیکھ کر افطار کرنا صحیح ہے یا نہیں؟ جواب : تارے کی سند شرعی نہیں۔ بعض تارے دن میں چمک آتے ہیں تو انہیں دیکھ کر روزہ افطار کرنا کیونکر جائز و صحیح ہو سکتا ہے۔ اور اگر افطار میں اتنی تاخیر کی کہ غروب آفتاب کے بعد جو ستارے عموماً چمکتے ہیں ان ستاروں میں سے کوئی ستارہ چمک آیا تو یہ رافضیوں کا طریقہ ہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ میری امت میری سنت پر رہے گی۔ جب تک افطار میں ستاروں کا انتظار نہ کرے۔ (ابن حبان) اور ایک حدیث شریف میں ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’یہ دین ہمیشہ غالب رہے گا‘‘ جب تک لوگ افطار میں جلدی کرتے رہیں گے کہ یہود و نصاری تاخیر کرتے ہیں (ابو داؤد وغیرہ) غرض دارومدار اس پر ہے کہ جب آفتاب تمام و کمال ڈوبنے پر یقین ہو جائے فوراً روزہ افطار کر لیں۔ (فتاویٰ رضویہ وغیرہ)سوال نمبر :7:کسی مسجد سے اذان کی آواز سن کر روزہ افطار کرنا چاہیے یا نہیں؟ جواب :اگر گمان غالب و یقین ہے کہ سورج غروب ہو چکا یا اذان کی آواز کسی ایسی مسجد آرہی ہے جہاں صحیح وقت پر اذان کا پورا پورا اہتمام کیا جاتا ہے تو اذان کی آواز پر افطار کر لینا چاہیے۔ لیکن اگر غروب آفتاب پر یقین نہیں یا وہ آواز کسی ایسی مسجد میں اذان کی ہے جہاں وقت صحیح کا اہتمام نہیں کیا جاتا جیسا کہ عموماً غیر مقلدوں کی آزانیں تو ہر گز اس پر افطار نہ کیا جائے۔ انتظار کریں تا آنکہ غروب آفتاب کا یقین ہو جائے۔ سوال نمبر :8:توپ یا گولے کی آواز یا ریڈیو کے اعلان پر افطار کریں یا نہیں؟جواب :توپ یا گولے یا ریڈیو پر وقت افطار کا اعلان یاریڈیو کی اذان ، ان سب میں سے حکم شرعی یہ ہے کہ اگریہ امور کسی نامور عالم دین، معتمد علیہ کے حکم پر انجام پاتے ہیں۔ تو یہ بھی غروب آفتاب پر ظن غالب کا ایک ذریعہ ہے۔ افطار کر سکتے ہیں۔ اگرچہ توپ چلانے والے یا ریڈیو پر اعلان کرنے والے فاسق ہوں۔ البتہ دیکھنے میں آیا ہے کہ بعض اوقات سائرن یا گولے وغیرہ غروب آفتاب سے پہلے ہی حرکت میں آجاتے ہیں ۔ لوگ ان پر اعتبار کرکے روزہ افطار کر لیتے ہیں۔ اور پھر قضاء رکھنی پڑتی ہے۔ اس لیے احتیاط اسی میں ہے کہ جب غروب آفتاب کا ظن غالب ہو جائے افطار کر لیں۔ (فتاویٰ علمائ)سوال نمبر :9:جنتریوں اور سحری و افطاری کے نقشوں پر عمل کرنا چاہیے یا نہیں؟ جواب :جنتریاں جوکہ شائع ہوتی ہیں اکثر غلط ہوتی ہیں۔ ان پر عمل جائز نہیں اور اوقات صحیح نکالنے کا فن جسے علم توقیت کہتے ہیں۔ یہاں کے عام علماء بھی اس سے ناواقف محض ہیں۔ لہٰذا سحری و افطاری کے نقشے اگر کسی عالم محقق توقیت داں محتاط فی الدین کے مرتبہ ہوں تو بے شک ان پر عمل کر سکتا ہے۔ یوں ہی ان کے ترتیب دادہ نقشوں اورہدایتوں کی روشنی میں جو نقشے ترتیب دیے جائیں۔ وہ قابل اعتماد ہیں مگر احتیاط اب بھی لازم ہے جبکہ خود ان نقشوں میں پانچ پانچ منٹ کی احتیاط درج ہوتی ہے۔ سوال نمبر :10:روزہ کس چیز سے افطار کرنا مسنون ہے؟جواب :احادیث میں وارد ہے کہ’’ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے پہلے تر کھجوروں سے افطار فرماتے ہیں۔ تر کھجوریں نہ ہوتیں تو چند خشک کھجوروں سے اور اگر یہ بھی نہ ہوتیں تو چند چلو پانی پیتے‘‘۔سوال نمبر :11:افطار کے وقت کون سی دعا پڑھنا مستحب ہے؟ جواب :افطار کے وقت یہ دعا پڑھنی چاہیے۔
الھم لک صمت وبک امنت و علیک تو کلت و علیٰ رزقک افطرت فاغفر لی ماقدمت وما اخرت O الہٰی میں نے تیرے لیے روزہ رکھا، تجھ پر ایمان لایا۔ تجھ پر بھروسہ کیا اور تیری روزی سے افطار کیا تو میرے اگلے پچھلے گناہوں کو بخش دے۔ (طحطاوی وغیرہ)
سوال نمبر :12:روزہ دار کو افطار کرانے میںکیا ثواب ہے؟ جواب :حضور اقدس سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ’’جس نے حلال کھانے یا پانی سے روزہ افطار کرایا۔ فرشتے ماہ رمضان کے اوقات میں اس کے لیے استغفار (دعائے مغفرت) کرتے ہیں۔ اور جبرائیل علیہ السلام شب قدر میں اس کے لیے استغفار کرتے ہیں‘‘ ۔ اور ایک روایت میں ہے جو حلال کمائی سے رمضان میں روزہ افطار کرائے۔ رمضان کی تمام راتوں میں فرشتے اس پر درود بھجتے ہیں۔ اور شب قدر میں جبرائیل علیہ الصلٰوۃ والسلام اس سے مصافحہ کرتے ہیں۔۔ ‘‘۔ اور ایک روایت میں ہے ’’جو روزہ دار کو پانی پلائے گا۔ اللہ تعالیٰ اسے میرے حوض سے پلائے گا کہ جنت میں داخل ہونے تک پیاسا نہ ہوگا‘‘۔ (طبرانی)سوال نمبر :13:ایک آدمی کے کہنے سے کہ افطار کا وقت ہو گیا ، افطار کرے یا نہ کرے؟جواب :وقت افطار کی خبر دینے والا اگر عادل ہو یعنی متقی پرہیز گار ، دیندار تو اس کے قول پر افطار کر سکتا ہے۔ جب کہ یہ اس کی بات کو سچی مانتا ہو۔ اور اگر اس کا دل اس کی بات پر نہیںجمتا تو اس کے قول کی بنا پر افطار نہ کرے۔ یوں ہی مستور کے کہنے پر بھی افطار نہ کرے۔ (ردالمحتار وغیرہ)