سوال نمبر :1:روزہ میں جھوٹ ، غیبت وغیرہ کا کیا حکم ہے؟
جواب :جھوٹ، چغلی، غیبت ، گالی دینا، بہودہ بات، کسی کو تکلیف دینا کہ یہ چیزیں ویسے بھی ناجائز و حرام ہیں۔ روزہ میں اور زیادہ حرام اور ان کی وجہ سے روزہ مین کراہت آتی ہے۔ (عامہ ء کتب)
سوال نمبر :2:جھوٹ وغیرہ سے روزے میں کراہت کی کیا وجہ ہے؟
جواب :روزہ صرف اس کا نام نہیں کہ آدمی ظاہری طور پر کھانا پینا وغیرہ چھوڑ دے بلکہ روزہ سے درحقیقت کان، آنکھ، زبان ہاتھ پاؤں اور تمام اعضاء کو گناہ سے باز رکھنا بھی شریعت اسلامیہ کا مقصود ہے۔ تو اگر روزہ سے یہ مقاصد حاصل نہ ہوں تو یہ کہا جا سکتا ہے۔ کہ گویا وہ روزہ رکھا ہی نہیں گیا۔ یا یوں کہنا چاہیے کہ جسم کا روزہ ہو گیا رو ح کا روزہ نہ ہوا۔ اسی لیے حدیث شریف میں ارشاد فرمایا گیا کہ جو روزہ دار بری بات کہنا اور اس پر عمل کرنا چھوڑے تو اللہ تعالیٰ کو اس کی کچھ حاجت نہیں کہ اس نے کھانا پینا چھوڑ دیا ہے۔ ایک اور حدیث شریف میں ہے کہ ’’روزہ تو یہ ہے کہ لغود بیہودہ باتوں سے بچا جائے‘‘۔
سوال نمبر :3:روزہ دار کو کسی چیز کے چکھنے کی اجازت ہے یا نہیں؟
جواب :روزہ دار کو بلا عذر کسی چیز کو چکھنا یا چبانا مکروہ ہے۔ اور چکھنے سے مراد یہ ہے کہ زبان پر رکھ کر مزہ دریافت کر لیں۔ اور اسے تھوک دیں۔ اس میں سے حلق میں کچھ نہ جانے پائے۔ (درمختاروغیرہ)
سوال نمبر :4:کسی چیز کو تھوڑا سا کھا لینے کو بھی چکھنا کہتے ہیں اس کا کیا حکم ہے؟
جواب :چکھنے کے وہ معنی نہیں جو آج کل عام محاورہ میں بولے اور سمجھے جاتے ہیں۔ یعنی کسی چیز کا مزہ دریافت کرنے کے لیے اس میں سے تھوڑا کھا لینا کہ یوں ہو تو کراہت کیسی روزہ ہی جاتا رہے گا۔ بلکہ کفارہ کے شرائط پائے جائیں تو کفارہ بھی لازم ہوگا۔ (بہار شریعت)
سوال نمبر :5:چکھنے کے لیے عذر کیا ہے؟
جواب :مثلاً عورت کا شوہر بد مزاج ہے کہ ہانڈی میں نمک کم و بیش ہوگا تو اس کی ناراضگی کا باعث ہوگا۔ تو اس وجہ سے چکھنے میں حرج نہیں۔ یا اتنا چھوٹا بچہ ہے کہ روٹی نہیںکھا سکتا اور کوئی نرم غذا نہیں جو اسے کھلائے جائے کہ حیض و نفاس والی یا کوئی اور بے روزہ ایسا موجود نہیں ہے جو اسے چبا کر دے دے تو بچہ کو کھلانے کے لیے روٹی وغیرہ چبانا مکروہ نہیں۔ یونہی کوئی چیز خریدی اور اس کا چکھنا ضروری ہے کہ نہ چکھے گا تو نقصان ہو جائے گا تو چکھنے میں حرج نہیں ورنہ مکروہ ہے۔ (درمختار وغیرہ)
سوال نمبر :6:عورت کا بوسہ لینے اور بدن چھونے کا کیا حکم ہے؟
جواب :عورت کا بوسہ لینا اور گلے لگانا اور بدن چھونا مکروہ ہے جبکہ یہ اندیشہ ہو کہ انزال ہو جائے گا یا جماع میں مبتلا ہو گا۔ اور ہونٹ یازبان چوسنا روزہ میں مطلقاً مکروہ ہے۔ علماء کرام نے بوسہ فا حشہ کو بھی مطلقاً مکروہ فرمایا۔ بوسہ فا حشہ یہ کہ عورت کے لب اپنے لبوں میں لے کر چبائے۔ اور زبان چوسنا بدرجہ اولیٰ مکروہ ہے جبکہ عورت کا لعاب دہن ، جو اس کی زبان چوسنے سے اس کے منہ میں آئے تھوک دے۔ اور حلق میں اتر گیا تو کراہت تو درکنار، روزہ ہی جاتا رہے گا۔ اور اگر قصد اً ایجالت لذت پی لیا تو کفارہ بھی لازم آئے گا۔ (درمختار،ردالمحتار وغیرہ)
سوال نمبر :7:روزہ میں گلاب وغیرہ سونگھنا مکروہ ہے یا نہیں؟
جواب :گلاب یا مشک وغیرہ سونگھنا، داڑھی میں تیل لگانا اور سرمہ لگانا مکروہ نہیں۔ مگر جب کہ زینت کے لیے سرمہ لگانا یا اس تیل لگا کر داڑھی بڑھ جائے حالانکہ ایک مشت داڑھی ہے۔ تو یہ دونوں باتین بغیر روزہ کے بھی مکروہ ہیں۔ اور روزہ میں بدرجہ اولیٰ۔ (درمختار)
سوال نمبر :8:روزہ میں مسواک کرنا کیسا ہے؟
جواب :روزہ میں مسواک کرنا مکروہ نہیں بلکہ جیسے اور دنوں میں سنت ہے روزہ میں بھی مسنون ہے۔ مسواک خشک ہو یا تر۔ اگر چہ پانی سے ترکی ہو ۔ زوال سے پہلے کرے یا بعد، کسی وقت مکروہ نہیں (عامۂ کتب) اکثر لوگوں میں مشہور ہے کہ دوپہر کے بعد روزہ دار کے لیے مسواک کرنا مکروہ ہے۔ یہ ہمارے مذہب (حنفیہ) کے خلاف ہے۔ (بہار شریعت)
سوال نمبر :9:روزہ میں منجن استعمال کرنا مکروہ ہے یا نہیں؟
جواب :روزہ میں منجن استعمال کرنا ناجائز و حرام تو نہیں جب کہ اطمینان کافی ہو کہ ا س کا کوئی جز حلق میں نہ جائے گا مگر بے ضرورت صحیحہ کراہت ضرور ہے۔ (فتاویٰ رضویہ)
سوال نمبر :10:روزہ میں کلی کرنے اور ناک میں پانی چڑھانے کا کیا حکم ہے؟
جواب :روزہ دار کے لیے کلی کرنے اور ناک میں پانی چڑھانے میں مبالغہ کرنا مکروہ ہے۔ کلی میں مبالغہ کرنے کے یہ معنی ہیں کہ بھر منہ پانی لے۔ اور ناک میں پانی چڑھانے میں مبالغہ یہ ہے کہ جہاں تک نرم گوشت ہوتا ہے ۔ہر بار اس پر پانی بہہ جائے اور ناک کی جڑ تک پانی پہنچ جائے۔ اور دونوں صورتوں میں روزہ کی حالت میں مبالغہ مکروہ ہے اور وضو و غسل کے علاوہ ٹھنڈپہنچانے کی غرض سے کلی کرنا یا ناک میں پانی چڑھانا یا ٹھنڈکے لیے نہانا۔ بلکہ بدن پر بھیگا کپڑا لپیٹنا مکروہ نہیں۔ ہاں اگر پریشانی ظاہر کرنے کے لیے بھیگا کپڑا لپیٹا تو مکروہ ہے کہ عبادت میں دل تنگ ہونا اچھی بات نہیں۔ (عالمگیری،ردالمحتار وغیرہ)
سوال نمبر :11:روزہ میں غسل جنابت کب اور کس طرح کرے؟
جواب :رمضان المبارک میں اگر رات کو جنب ہوا جس کے باعث اس پر غسل فرض ہے تو بہتر یہی ہے کہ قبل طلوع فجر نہالے تاکہ روزے کا ہر حصہ جنابت (ناپاکی) سے خالی ہو۔ اور اگر نہیں نہایا تو بھی روزہ میں کچھ نقصان نہیں۔ مگر مناسب یہ ہے کہ غر غر اور ناک میں جڑ تک پانی چڑھانا (جسے استنشاق کہتے ہیں) یہ دو کام طلوع فجر سے پہلے کرلے۔ کہ پھر روزہ میں نہ ہو سکیں گے۔
اور اگر نہانے میں اتنی تاخیر کی کہ دن نکل آیا اور نماز قضا کر دی تو یہ اور دونوں میں بھی گناہ ہے اور رمضان میں اور زیادہ کہ اس سے روزہ کی نورانیت ہی جاتی رہتی ہے۔ (فتاویٰ رضویہ وغیرہ)
سوال نمبر :12:پانی میںریاح خارج کرنا کیسا ہے؟
جواب :پانی کے اندر( مثلاً نہر ، ندی ، تالاب وغیرہ میں نہاتے وقت) ریاح خارج کرنے سے روزہ تو نہیں جاتا مگر مکروہ ہے۔ (عالمگیری)
سوال نمبر :13:روزہ میں استنجا کرنے میں مبالغہ کرنا مکروہ ہے یا نہیں؟
جواب :روزہ دار کو استنجے میں مبالغہ کرنا مکروہ ہے۔ یعنی اور دنوں میں حکم ہے کہ استنجا کرتے اور طہارت لیتے وقت کشادہ ہو کر بیٹھیں۔ پاخانہ کا مقام، سانس کا زور نیچے دے کر ڈھیلا رکھیں اور خوب اچھی طرح دھوئیں۔ مگر روزہ کے دنوں میں نہ زیادہ پھیل کر بیٹھے نہ نیچے کو زور دیا جائے نہ مبالغہ کرے۔ (عالمگیری )
سوال نمبر :14:محنت و مشقت کا کام روزے میں جائز ہے یا نہیں؟
جواب :رمضان کے دنوں میں ایسا کام کرنا جائز نہیں جس سے ایسا ضعف آجائے کہ روزہ توڑنے کا ظن غالب ہو۔ لہٰذا نان بائی کو چاہیے کہ دوپہر تک روٹی پکائے پھر باقی دن میں آرام کرے۔ (درمختار)
یہی حکم معمار و مزدور اور مشقت کے کام کرنے والوں کا ہے کہ زیادہ ضعف کا اندیشہ ہو تو کام میں کمی کر دیں کہ روزے ادا کر سکیں۔ (بہار شریعت) مقصودیہ ہے کہ کمزوری کو بہانہ بنا کر روزے خور نہ بنیں۔ اور خدائی احکام کی کھلم کھلا خلاف ورزی کر کے غضب الہٰی نہ خریدیں۔