روزمرہ کے معمولات میں تین چیزیں ایسی ہیں جو انسانی جوہر کو برباد کرکے اسے ہوا وہوس کا بندہ بنا دیتی ہیں یعنی کھانا، پینا اور عورت مرد کے درمیان جنسی تعلقات انہی چیزوں کو اعتدال میں رکھنے اور ایک مقررہ مدت میں ان سے دور رہنے کانام روزہ ہے۔
لیکن اصطلاح شریعت میں مسلمان کا بہ نیت عبادت ، صبح صادق سے غروب آفتاب تک اپنے آپ کو قصداً کھانے پینے اور جماع سے باز رکھنے کا نام روزہ ہے۔ عورت کا حیض و نفاس سے خالی ہونا شرط ہے ۔ (عامہ کتب)
سوال نمبر 2: اسلام میں روزہ کی کیا اہمیت ہے؟
جواب : اسلام میں روزہ کی اہمیت کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ :
( ۱) یہ اسلامی ارکان میں سے چوتھا رکن ہے۔
(۲) روزے جسمانی صحت کو برقرار رکھتے بلکہ اسے بڑھاتے ہیں۔
(۳) روزوں سے دل کی پاکی، روح کی صفائی اورنفس کی طہارت حاصل ہوتی ہے۔
(۴) روزے ، دولت مندوں کو،غریبوں کی حالت سے عملی طور پر باخبر رکھتے ہیں۔
(۵) روزے ، شکم سیروں اور فاقہ مستوں کو ایک سطح پر کھڑا کر دینے سے قوم میں مساوات کے اصول کو تقویت دیتے ہیں۔
(۶) روزے ملکوتی قوتوں کو قوی اور حیوانی قوتوں کو کمزور کرتے ہیں۔
(۷) روزے جسم کو مشکلات کا عادی اور سختیوں کا خوگر بناتے ہیں۔
(۸) روزوں سے بھوک اور پیاس کے تحمل اور صبر و ضبط کی دولت ملتی ہے۔
(۹) روزوں سے انسان کو دماغی اور روحانی یکسوئی حاصل ہوتی ہے۔
(۱۰) روزے سے بہت سے گناہوں سے انسان کو محفوظ رکھتے ہیں۔
(۱۱) روزے نیک کاموں کیلئے اسلامی ذوق و شوق کو ابھارتے ہیں۔
(۱۲) روزہ ایک مخفی اور خاموش عبادت ہے جو ریاونمائش سے بری ہے۔
(۱۳) قدرتی مشکلات کو حل کرنے اور آفات کو ٹالنے کے لیے روزہ بہترین ذریعہ ہے۔ ان فوائد کے علاوہ اور بہت فائدے ہیں جن کا ذکر قرآن و حدیث میں ہے۔
سوال نمبر 3: قرآن کریم میں روزہ کا مقصد کیا بیان کیا گیا ہے؟
جواب : قرآن کریم نے روزہ کے مقاصد اور اس کے اغراض تین مختصر جملوں میں بیان فرمائے ہیں:
(۱) یہ کہ مسلمان اللہ تعالیٰ کو کبریائی اور اس کی عظمت کا اظہار کریں۔
(۲) ہدایت الہٰی ملنے پر خدائے کریم کا شکر بجالائیں کہ اس نے پستی و ذلت کے عمیق غار سے نکال کر ، رفعت و عزت کے اوج کمال تک پہنچایا۔
(۳) یہ کہ مسلمان پرہیز گار بنیں اور ان میں تقویٰ پیدا ہو۔
۔۔’’ تقویٰ‘‘ دل کی اس کیفیت کا نام ہے جس کے حاصل ہو جانے کے بعد دل کو گناہوں سے جھجک معلوم ہونے لگتی ہے اور نیک کاموں کی طرف اس کو بے تاہانہ تڑپ ہوتی ہے روزہ کا مقصود یہ ہے کہ انسان کے اندر یہی کیفیت پید ا ہو ۔ دوسرے الفاظ میں ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ روزے ، خداترسی کی طاقت انسان کے اندر محکم کر دیتے ہیں۔ جس کے باعث انسان اپنے نفس پر قابو پا لیتا ہے اور خدا کے حکم کی عزت اور عظمت اس کے دل میں ایسی جاگزیں ہو جاتی ہے کہ کوئی جذبہ اس پر غالب نہیں آتا اور یہ ظاہر ہے کہ ایک مسلمان خدا کے حکم کی وجہ سے حرام ناجائزاور گندی عادتیں چھوڑ دے گا اور ان کے ارتکاب کی کبھی جرات نہ کرے گا۔ اسی اخلاقی برتری کو ہم تقویٰ کہتے ہیں۔
سوال نمبر 4: احادیث میں روزہ کے جو فضائل آئے ہیں وہ بیان کریں؟
جواب : احادیث کریمہ روزے کے فضائل سے مالا مال ہیں۔ حضور پر نور سید عالم سرور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ:
(۱) جب رمضان آتا ہے آسمان کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں اور ایک روایت میں ہے کہ رحمت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دےئے جاتے ہیں۔ اور شیاطین زنجیر وں میں جکڑ دئیے جاتے ہیں (بخاری مسلم وغیرہ) ۔
(۲) جنت ابتدائے سال سے ، سال آئندہ تک رمضان کے لیے آراستہ کی جاتی ہے اور جب رمضان کا پہلا دن آتا ہے تو جنت کے پتوں سے عرش کے نیچے ایک ہوا حورعین پر چلتی ہے وہ کہتی ہیں ۔ اے رب ! تو اپنے بندوں سے ہمارے لیے ان کو شوہر بنا جن سے ہماری آنکھیں ٹھنڈی ہوں اور ان کی آنکھیں ہم سے ٹھنڈی ہوں (سہبیقی) ۔
(۳) جنت میں آٹھ دروازے ہیں ان میں سے ایک دروازہ کا نام ریان ہے۔ اس دروازے سے وہی جائیں گے جو روزہ رکھتے ہیں۔ (ترمذی وغیرہ)
(۴) روزہ دار کے لیے دو خوشیاں ہیں ۔ ایک افطار کے وقت اور ایک اپنے رب سے ملنے کے وقت اور روزہ دار کے منہ کی بو، اللہ عزوجل کے نزدیک مشک سے زیادہ پا کیزہ ہے۔ (بخاری و مسلم وغیرہ)
(۵) (رمضان المبارک کا مہینہ) وہ مہینہ ہے کہ اس کا اول رحمت ہے۔ اور اس کا اوسط (درمیانہ حصہ) مغفرت ہے اور آخر ، جہنم سے آزادی۔ (سہبیقی)
(۶) روزہ اللہ عزوجل کے لیے ہے اس کا ثواب اللہ عزوجل کے سوا کوئی نہیں جانتا (طبرانی)
(۷) ہر شے کے لیے زکوٰۃ ہے اور بدن کی زکوٰۃ روزہ ہے اور نصف صبر ہے (ان ماجہ)
(۸) روزہ دار کی دعا افطار کے وقت رد نہیں کی جاتی ۔ (بہیقی)
(۹) اگر بندوں کی معلوم ہوتا کہ رمضان کیا چیز ہے تو میری امت تمنا کرتی کہ پورا سال رمضان ہی ہو۔ (ابن خزیمہ)
(۱۰) میری امت کو ماہ رمضان میں پانچ باتیں دی گئیں کہ مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہ ملیں اول یہ کہ جب رمضان کی پہلی رات ہوتی ہے اللہ عزوجل ان کی طرف نظر فرماتا ہے۔ اور جس کی طرف نظر فرمائے گا۔ اسے کبھی عذاب نہ کرے گا ۔ دوسری یہ کہ شام کے وقت ان کے منہ کی بو ، اللہ کے نزدیک مشک سے زیادہ اچھی ہے۔ تیسری یہ کہ ہر دن اور رات میں فرشتے ان کے لیے استغفار کرتے ہیں ۔ چوتھی یہ کہ اللہ عزوجل جنت کو حکم فرماتا ہے ۔ کہتا ہے مستعد ہو جا اور میرے بندوں کے لیے مزیں ہو جا (بن سنور جا) قریب ہے کہ دنیا کی تعب (مشقت تکان) سے یہاں آکر آرام کریں۔ پانچویں یہ کہ جب آخر رات ہوتی ہے۔ تو ان سب کی مغفرت فرمادیتا ہے ۔ کسی نے عرض کی کیا وہ شب قدر ہے؟ فرمایا ’’نہیں‘‘ کیا تو نہیں دیکھتا کہ کام کرنے والے کام کرتے ہیں جب کام سے فارغ ہوتے ہیں ۔ اس وقت مزدوری پاتے ہیں؟(بیہقی)
(۱۱) اللہ عزوجل رمضان میں ہر روز د س لاکھ کو جہنم سے آزاد فرماتا ہے۔ اور جب رمضان کی انتیسویں رات ہوتی ہے تو مہینے بھر میں جتنے آزاد کیے ان کے مجموعہ کے برابر اس ایک رات میں آزاد کرتا ہے۔ پھر جب عید الفطر کی رات آتی ہے ۔ ملائکہ خوشی کرتے ہیں اور اللہ عزوجل اپنے نور کی خاص تجلی فرماتا اور فرشتوں سے فرماتا ہے ’’ اے گروہ ملائکہ اس مزدور کا کیا بدلہ ہے جس نے کام پورا کر لیا؟ فرشتے عرض کرتے ہیں ۔۔ ’’اس کو پورا اجر دیا جائے‘‘ اللہ عزوجل فرماتا ہے میں تمہیں گواہ کرتا ہوں کہ میں ان سب کو بخش دیا۔ (اصبہانی)
سوال نمبر 5: روزے کے کتنے درجے ہیں؟
جواب : روزے کے تین درجے ہیں۔ ایک عام لوگوں کا روزہ کہ یہی پیٹ اور شرمگاہ کو کھانے پینے جماع سے روکنا۔ دوسرا اخواص کا روزہ کہ ان کے علاوہ کان ، آنکھ، زبان، ہاتھ ، پاؤں اور تمام اعضاء کو گناہ سے باز رکھنا۔ تیسرا خاص الخاص کا روزہ کہ جمیع ماسوا اللہ یعنی عزوجل کے سوا کائنات کی ہر چیز سے اپنے آپ کو بالکیہ جدا کرکے صرف اسی کی طرف متوجہ رہنا۔ (جوہر نیرہ)
سوال نمبر 6: روزہ کی کتنی قسمیں ہیں؟
جواب : روزہ کی پانچ قسمیں ہیں:
فرض، واجب، نفل، مکروئہ تنز یہی اور مکروئہ تحریمی۔
سوال نمبر 7: فرض وواجب کی کتنی قسمیں ہیں؟
جواب : فرض وواجب ہر ایک کی دو قسمیں ہیں معین، غیر معین۔
سوال نمبر 8: فرض معین کون سے روزے ہیں؟
جواب : فرض معین جیسے رمضان المبارک کے روزے جو اسی ماہ میں ادا کیے جائیں ۔ اور فرض غیر معین جیسے رمضان کے روزوں کی قضا اور کفارے کے روزے ، کفار ہ خواہ روزہ توڑنے کا ہو یا کسی اور فعل کا۔
سوال نمبر 9: واجب معین اور غیر واجب معین کون سے روزے ہیں؟
جواب : واجب معین جیسے نذر و منت کا وہ روزہ جس کے لیے وقت معین کر لیا ہو اور واجب غیر معین جس کے لیے وقت معین نہ ہو۔
سوال نمبر 10: نفلی روزے کون کون سے ہیں؟
جواب : نفلی روزے جیسے عاشور اء یعنی دسویں محرم کا روزہ اور اس کے ساتھ نویں کا بھی ۔ ایام بیض یعنی ہر مہینے میں تیر ہویں چودہویں اور پندرہویں تاریخ کا روزہ عرفہ یعنی نویں ذی الحجہ کا روزہ ، شش عید کے روزے ، صوم داؤد علیہ السلام یعنی ایک دن روزہ ایک دن افطار ۔ پیر اور جمعرات کا روزہ ، پندرہویں شعبان کا روزہ ۔ ان کے علاوہ اور بھی روزے ہیں جن کا ثواب احادیث میں وارد ہوا ہے۔ اور ان نفلی روزوں میں کچھ مسنون ہیں اور کچھ مستحب ۔ (نور الا یضاح درمختار وغیرہ)۔
سوال نمبر 11: مکرؤہ تنز یہی کون سے روزے ہیں؟
جواب : جیسے صرف ہفتہ کے دن روزہ رکھنا کہ یہ یہودیوں کا سا روزہ ہے۔ نیروز اور مہرگان کہ روز آتش پرستوں میں رکھے جاتے تھے۔ صوم دہر یعنی ہمیشہ روزہ رکھنا۔ صوم سکوت یعنی ایسا روزہ جس میں کچھ بات نہ کرے، صوم وصال کہ روزہ رکھ کر افطار نہ کرے اور دوسرے دن پھر روزہ رکھ لے۔ یہ سب مکرؤ ہ تنز یہی ہیں۔ (عالمگیری)
سوال نمبر 12: مکرؤہ تحریمی کون سے روزے کہلاتے ہیں؟
جواب : جیسے عید البقر عید اور ایام تشریق (یعنی ذی الحجہ کی ۱۱،۱۲،۱۳ تاریخ ) کے روزے (درمختار وغیرہ)
سوال نمبر 13: روزہ کی شرائط کیا ہیں؟
جواب : روزہ دار کا مکلف یعنی عاقل بالغ ہونا اور خاص عورت کے لیے حیض و نفاس سے خالی ہونا روزہ کے لیے شرط ہے (عامۂ کتب)۔
سوال نمبر 14: نابالغ بچہ لڑکا خواہ لڑکی روزہ رکھے یا نہیں؟
جواب : نابالغ لڑکے یا لڑکی پر اگرچہ روزہ فرض نہیں، مگر حکم شریعت یہ ہے کہ بچہ جیسے ہی آٹھویں سال میں قدم رکھے اس کے ولی پر لازم ہے کہ اسے نماز روزے کا حکم دے اور جب بچہ کی عمر دس سال کی ہو جائے اور گیارہواں سال شروع ہو۔ اور اس میں روزہ رکھنے کی طاقت ہو تو اس سے روزہ رکھوایا جائے۔ نہ رکھے تو مار کر رکھوائیں۔ اگر پوری طاقت دیکھی جائے ، ہاں رکھ کر توڑ دیا تو قضا کا حکم نہ دیں گے اور نما ز توڑ ے تو پھر پڑھوائیں۔ (ردالمحتار)
سوال نمبر 15: روزے کے فرض یا واجب ہونے کے اسباب کیا ہیں؟
جواب : روزے کے مختلف اسباب ہیں، روزہ رمضان کا سبب ، ماہ رمضان کا آنا، روزہ نذر کا سبب، منت ماننا، روزہ کفار ہ کا سبب، قسم توڑنا یا قتل و ظہار وغیرہ (عالمگیری)
سوال نمبر 16: رمضان المبارک کے روزے کب فرض ہوئے؟
جواب : رمضان المبارک کے روزے بھی ہجرت کے دوسرے ہی سال فرض ہوئے۔ (خازن) جب کہ لوگ تو حید نماز اور دیگر احکام قرآنی کے خوگر ہو چکے تھے اور چونکہ اصول اسلام کی روسے فاقہ مستوں کو روزہ کی جتنی ضرورت ہے۔ شکم سیروں کے لیے و ہ اس سے زیادہ ضروری ہے تو یہ کہنا درست نہیں کہ ۔۔’’چونکہ آغاز اسلام میں مسلمانوں کو اکثر فاقوں سے دو چار ہونا پڑتا تھا۔ اس لیے ان کو روزوں کا خوگر بنا دیا گیا‘‘۔ اگر ایسا ہوتا تو ظہور اسلام کے بعد ہی ، مکی زندگی کا اس کے لیے انتخاب کیا جاتا کہ مسلمانوں کی مالی حالت کے اعتبار سے موزوں ہو سکتا تھا۔ مگر ایسا نہ ہوا بلکہ روزہ وسط اسلام میں ہجرت بعد فرض کیا گیا ۔
سوال نمبر 17: جو شخص روزہ نہ رکھے اس کے لیے کیا حکم ہے؟
جواب : روزہ کا بلا عذر شرعی ترک کرنے والا سخت گناہگار اور فاسق و فاجر ہے اور عذاب جہنم کا مستحق ۔ اور رمضان المبارک میں جو شخص علانیہ بلا عذر شرعی قصداً کھائے پئے تو حکم ہے کہ اسے قتل کیا جائے (ردالمحتار)یعنی حاکم اسلام ایسے مسلمان کوتعزیراً قتل کر سکتا ہے۔
سوال نمبر 18: قمری حساب سے روزے فرض کرنے میں کیا حکمت ہے؟
جواب : خدا و رسول ہی اس کی حکمت کو بہتر جانتے ہیں۔ ہاں بظاہر یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ رمضان المبارک کا مہینہ قمری حساب پر رکھنے میں عام مسلمانوں کو یہ فائد ہ پہنچتا ہے کہ قمری مہینہ اول بدل کر آنے سے کل دنیا کے مسلمانوں کے لیے مساوات قائم کر دیتا ہے۔ لیکن اگر کوئی شمسی مہینہ روزوں کے لیے مقرر کر دیا جاتا تو نصف دنیا کے مسلمان ہمیشہ موسم سرما کی سہولت میں روزے رکھتے اور نصف دنیا کے مسلمان ہمیشہ گرمی کی سختی اور تکلیف میں رہا کرتے اور یہ امر عالم گیر دین اسلام کے اصول کے خلاف ہوتا کیونکہ جب نصف دنیا پر سردی کا موسم ہوتا ہے تو دوسرے نصف پر گرمی کا موسم ہوتا ہے۔