سوال نمبر 1: ادا اور قضا کسے کہتے ہیں؟
جواب :جس چیز کا بندوں پر حکم ہے اسے وقت میں بجالانے کو ادا کہتے ہیں اور وقتِ مقرر گزر جانے کے بعد عمل میں لانا قضا ہے اور اگر اس کے بجالانے میں کوئی خرابی پیدا ہو جائے تو وہ خرابی دور رکنے کے لیے دوبارہ کرنا اعادہ ہے۔
سوال نمبر 2: نماز قضا کر دینا کیسا ہے؟
جواب :بلا عذر شرعی نماز قضا کر دینا بہت سخت گناہ ہے اس پر فرض ہے کہ اس کی قضا پڑھے اور سچے دل سے توبہ کرے اور توبہ جب ہی صحیح ہے کہ قضا پڑھے۔اس کو تو ادا نہ کرے اور توبہ کہے جائے تو یہ توبہ نہیں کہ وہ نماز جو اس کے ذمہ تھی وہ اب بھی ذمہ پر باقی ہے اور جب گناہ سے باز نہ آیا تو توبہ کہاں ہوئی؟ حدیث میں فرمایا گناہ پر قائم رہ کر استغفار کرنے والا اس کی مثل ہے جو اپنے رب سے ٹھٹھا کرتا ہے۔
سوال نمبر 3: وہ کونسی نمازیں ہیں جن کی قضا واجب ہے؟
جواب :وہ نمازیں جو وقت کے اندر واجب ہو کر فوت ہوگئی ہوں خواہ جان کر فوت ہوں یا بھول کر یا نیند سے، تھوڑی ہوں یا بہت، سب کی قضا لازم ہے۔ ہاں سوتے میں یا بھولے سے نماز قضا ہوگئی ہو تو قضا کا گناہ اس پر نہیں مگر بیدار ہونے اور یاد آنے پر اگر وقت مکروہ نہ ہو تو اسی وقت پڑھ لے۔ اب تاخیر مکروہ ہے۔
سوال نمبر 4: قضا نماز کس وقت ادا کرے؟
جواب :قضا کے لیے کوئی وقت معین نہیں۔ عمر میں جب پڑھے گا، بری الذمہ ہوجائے گا مگر طلوع و غروب و زوال کے وقت قضا نماز بھی جائز نہیں اور بلا عذرِ شرعی تاخیر بھی گناہ ہے۔ طلوعِ آفتاب کے بیس منٹ بعد اور غروبِ آفتاب سے بیس منٹ قبل ادا کر سکتا ہے۔
سوال نمبر 5: نماز قضا کر دینے کے لیے عذر شرعی کیا ہے؟
جواب :دشمن کا خوف نماز ادا کر دینے کے لیے عذر ہے مثلاً مسافر کو چور اور ڈاکوؤں کا صحیح اندیشہ ہے تو اس کی وجہ سے وقتی نماز قضا کر سکتا ہے بشرطیکہ کسی طرح نماز ادا کرنے پر قادر نہ ہو۔
سوال نمبر 6: وہ کونسی نمازیں ہیں جن کی قضا واجب نہیں؟
جواب :مجنون کی حالت جومیں نماز یں فوت ہوئیں ۔ اچھے ہونے کے بعد ان کی قضا واجب نہیں جبکہ جنون نماز کے چھ وقت کامل تک برابر رہا ہو۔ یونہی جو شخص معاذ اللہ مرتد ہو گیا پھر اسلام لایا تو زمانہ ارتداد کی نمازوں کی قضا نہیں، ہاں مرتد ہونے سے پہلے زمانہ اسلام میں جو نمازیں جاتی رہیں ان کی قضا واجب ہے ۔ یونہی ایسا مریض کہ اشارے سے بھی نماز نہیں پڑھ سکتا ،اگر یہ حالت پورے چھ برس تک رہی تو اس حالت میں جو نمازیں فوت ہوئیں ان کی قضا واجب نہیں۔
سوال نمبر 7: بجا لتِ سفرجو نمازیں فوت ہوئیں ان کی قضا کیونکر ہوگی؟
جواب :سفر میں جو نماز قضا ہوئی تو چار رکعت والی دو ہی پڑھی جائے گی۔ اگر اقامت کی حالت میں پڑھے اور حالت اقامت میں فوت ہوئی تو چار رکعت والی کی قضا چاررکعت ہے۔ اگرچہ سفر میں پڑھے غرض جو نماز ، جیسی فوت ہوئی اس کی قضا ویسی ہی پڑھی جائے گی۔ البتہ فرض نمازوں کی قضا میں تعینِ یوم اور تعینِ نماز ضروری ہے مثلاً فلاں دن کی نماز فلاں۔
سوال نمبر 8: قضا نمازوں میں ترتیب ضروری ہے یا نہیں؟
جواب :پانچوں فرضوں میں باہم اور فرضِ عشاء ووتر میں ترتیب ضروری ہے کہ پہلے فجر، پھر ظہر پھرعصر، پھر مغرب پھر عشاء اور وتر پڑھے۔ خواہ یہ سب قضاہوںیا بعض ادا، بعض قضاء مثلاً ظہر کی نماز فوت ہو گئی تو فرض ہے کہ اسے پڑھ کر عصر پڑھے یا وتر قضا ہو گیا تو اسے پڑھ کر فجر پڑھے اگر یاد ہوتے ہوئے عصر یا فجر کی پڑھ لی تو ناجائز ہے۔
سوال نمبر 9: ترتیب کبھی ساقط ہوتی ہے یا نہیں؟
جواب :ہاں تین عذر سے ترتیب ساقط ہو جاتی ہے۔ پہلا عذر تنگی وقت ہے کہ اگر وقت میں اتنی گنجائش نہیں کہ وقتی اور قضا سب پڑھ لے تو وقتی اور قضا نمازوں میں جس کی گنجائش ہو پڑھے باقی میں ترتیب ساقط ہے اور اگر وقت میں اتنی گنجائش ہے کہ مختصر طور پر پڑھے تو دونوں پڑھ سکتا ہے اور عمدہ طریقہ سے پڑھے تو دونوں کی گنجائش نہیں تو اس صورت میں بھی ترتیب فرض ہے اور بقدر جواز جہاں تک اختصار کر سکتا ہے کر لے۔
دوسرا عذر نسیان یعنی بھول ہے کہ قضاء نماز یا د نہ رہی اورو قتیہ پڑھ لی، پڑھنے کے بعد یا د آئی تو وقتیہ ہو گئی اور پڑھنے میں یاد آئی تو گئی۔
تیسرا عذر چھ یا زیادہ نمازوں کا فوت ہو جانا ہے کہ چھ نمازیں جس کی قضا ہوگئیں یعنی چھٹی نماز کا وقت ختم ہو گیا تو اس پر ترتیب فرض نہیں، البتہ اگر سب قضا نمازیں پڑھ لیں تو اب پھر صاحبِ ترتیب ہو گیا۔
سوال نمبر 10:اگر کسی کی بہت سی نمازیں قضا ہو جائیں تو ان کی ادائیگی میں تاخیر جائز ہے یا نہیں؟
جواب :جس کے ذمہ قضا نمازیں ہوں اگرچہ ان کا پڑھنا جلدسے جلد واجب ہے مگر بال بچوں کی خودرونوش اور اپنی ضروریات کی فراہمی کے سبب تاخیر جائز ہے تو کاروبار بھی کرے اور جو وقت فرصت کا ملے، اس میں قضا پڑھتا رہے۔ یہاں تک کہ پوری ہو جائیں۔
سوال نمبر 11: جس کے ذمہ قضا نمازیںہیں و ہ نفل پڑھے یا نہیں؟
جواب :جب تک فرض ذمہ پر باقی رہتا ہے کوئی نفل قبول نہیں کیا جاتا۔ لہٰذا قضا نمازیں نوافل سے اہم ہیں یعنی جس وقت نفل پڑھتا ہے انھیں چھوڑ کر ان کے بدلے قضا ئیں پڑھے کہ بری الذمہ ہوجائے۔ البتہ تراویح اور بارہ رکعتیں سنت موکدہ کی نہ چھوڑے۔
سوال نمبر 12: قضا نمازیں بہت سی ہوں تو ان کی ادائیگی کا آسان طریقہ کیا ہے؟
جواب :ایک دن رات میں مع وِ تر وعشاء بیس رکعتیں ہوتی ہیں۔ ان کا ایسا حساب لگائے کہ تخمینہ میں باقی نہ رہ جائیں، زیادہ ہو جائیں تو حرج نہیں، اور وہ سب بقدر طاقت رفتہ رفتہ جلد ادا کر لے، کاہلی نہ کرے، جس پر بہت سی نمازیں قضا ہوں اس کے لیے تخفیف اور جلد ادا ہونے کی صورت یہ ہے کہ خالی رکعتوں میں بجا ئے الحمد شریف کے تین بار سبحان اللہ کہے اور رکوع وسجود میں صرف ایک بار سبحٰن ربی العظیم او ر سبحٰن ربی اعلیٰ پڑھ لینا کافی ہے اور تشہد کے بعد دونوں درود شریف کی بجائے اللھم صل علیٰ سیدنا محمد واٰلہٖ اور وتر میں بجائے دعائے قنوت رب اغفرلی کہنا کافی ہے۔ البتہ ہر ایسا شخص جس کے ذمہ قضا نمازیں باقی ہیں چھپ کر پڑھے کہ گناہ کا اعلان جائز نہیں۔
سوال نمبر 13:جس کے ذمہ بہت سی نمازیں ہوں اور انتقال کر جائے تو اس کی طرف سے کتنا فدیہ دیا جائے؟
جواب :جس کی نمازیں قضاہو گئیں اور اس کا انتقال ہو جائے تو اگر وصیت کر گیا اور اگر مال بھی چھوڑا تو تہائی مال سے ہر فرض ووتر کے بدلے نصف صاع (یعنی اسی ۸۰ کی تول سے تقریباً سوا دو سیر ) گیہوں یا اس کا آٹا یا ستو، یا ایک صاع یعنی تقریباً ساڑے چار سیر جو، یا ان میں سے کسی کی قیمت تصدق کریں اور مال نہ چھوڑا اور ورثاء فدیہ دینا چاہیں تو کچھ مال اپنے پاس سے یاقرض لے کر کسی مسکین کو فی سبیل اللہ دے دیں، اب مسکین اپنی طرف سے اسے ہبہ کر دے اور یہ قبضہ کر دے اور یہ قبضہ بھی کر لے پھر یہ مسکین کو دے ۔ یونہی لوٹ پھیر کرتے رہیں۔ یہاں تک کہ سب کا فدیہ ادا ہو جائے اور اگر وصیت نہ کی اور ولی اپنی طرف سے بطورِ احسان فدیہ دینا چاہیں تو دیں بلکہ بہتر ہے۔
سوال نمبر 14: نمازوں کے فدیہ کی قیمت میں قرآن مجید دینا کیسا ہے؟
جواب :نمازوں کے فدیہ کی قیمت لگا کر سب کے بدلے میں جو قرآن مجید دیا جاتا ہے۔ اس سے کل فدیہ اد ا نہیں ہوتا بلکہ صرف اتنا ہی ادا ہو گا۔ جس قیمت کا مصحف شریف ہے۔ اس طرح فدیہ دینا اور یہ سمجھنا کہ سب نمازوں کا فدیہ ادا ہو گیا ، محض بے اصل بات ہے۔