سوال نمبر 1: شریعت میں مسافر کسے کہتے ہیں؟
جواب :شرعاً مسافر وہ شخص ہے جو تین دن کی راہ تک متصلاً جانے کے ارادے سے بستی سے باہر ہوا، اور تین دن کی مراد یہ نہیں کہ صبح سے شام تک چلے بلکہ مرادون کا اکثر حصہ ہے اس لیے کہ کھانے پینے، نماز اور دیگر ضروریات کے لیے ٹھہرنا تو ضروری ہے اور چلنے سے مراد معتدل چال کر نہ تیز ہو نہ سُست۔
سوال نمبر 2: مسافت سفر میں کوس کا اعتبار ہے یا نہیں؟
جواب :کوس کا اعتبار نہیں کہ کوس کہیں بڑے ہوتے ہیں کہیںچھوٹے بلکہ اعتبار تین منزلوں کا ہے اور خشکی میں میل کے حساب سے اس کی مقدار 58/3/8میل ہے۔ یعنی تقریباً57/1/2میل اور اسی راستہ کا اعتبار ہوگا جس سے سفر کر رہا ہے۔
سوال نمبر 3: بستی سے باہر ہونے کا کیا مطلب ہے؟
جواب :بستی سے باہر ہونے سے مراد یہ ہے کہ بستی کی آبادی سے باہر ہو جائے۔ شہر میں ہے تو شہر کی آبادی اور گاؤں میں ہے تو گاؤں کی آبادی سے اور شہر والے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ شہر کے آس پاس جو آبادی شہر سے متصل ہے اس سے بھی باہر ہو جائے اور اسٹیشن جہاں آبادی سے باہر ہوں تو اسٹیشن پر پہنچنے سے پہلے مسافر ہو جائے گا جبکہ تین دن کا ارادہ متصل سفر کا ہو۔
سوال نمبر 4: وہ کیا احکام ہیں جو مسافر کے لیے بدل جاتے ہیں؟
جواب :نما ز کا قصر ہو جانا، روزہ نہ رکھنے کا مباح ہو جانا، موزوں کے مسح کی مدت کا تین دن تک بڑھ جانا، جمعہ، عیدین اور قربانی کا اس کے ذمہ لازم نہ رہنا وغیرہ۔
سوال نمبر 5: نماز میں قصر کا کیا مطلب ہے؟
جواب :قصر یعنی چار رکعت والے فرض کو دو پڑھنا ، مسافر کے حق میں دو ہی رکعتیں پوری نماز ہے اگر قصداً چار رکعت پڑھے گا تو گنہگار اور مستحق عذاب ہے کہ واجب ترک کیا لہٰذا توبہ کرے۔
سوال نمبر 6: سنتوں میں قصر ہے یا نہیں؟
جواب :سنتوں میں قصر نہیں بلکہ پوری پڑھی جائیں گی۔ البتہ خوف اور رواداری کی حالت میں معاف ہیں اور امن کی حالت میں پڑھی جائیں۔
سوال نمبر 7: مسافر کب تک مسافر رہتا ہے؟
جواب :مساف اس وقت تک مسافر ہے جب تک اپنی بستی میں پہنچ نہ جائے یا آبادی میں پورے پندرہ دن ٹھہرنے کی نیت نہ کرے اور یہ اس وقت ہے جب تین دن کی راہ چل چکا ہو اور اگر تین منزل پہنچنے سے پیشتر اور اپنے وطن واپسی کا ارادہ کر لیا تو مسافر نہ رہا اگرچہ جنگل میںہو۔
سوال نمبر 8: وطن کے (کتنی) قسم کے ہوتے ہیں؟
جواب :وطن دو قسم کے ہوتے ہیں ایک وطن اصلی ، دوسرا وطنِ اقامت ، وطنِ اصلی وہ جگہ ہے جہاں اس کی پیدائش ہے یا اس کے گھر کے لوگ وہاں رہتے ہیں ، یا وہاں سکونت اختیار کر لی اور یہ ارادہ ہے کہ یہاں سے نہ جائے گا اور وطن اقامت وہ جگہ ہے جہاں مسافر نے پندرہ دن یا اس سے زیادہ ٹھہرنے کا ارادہ کیا ہو۔
سوال نمبر 9: کسی شخص کا ارادہ اگر کسی جگہ پندرہ روز سے کم رہنے کا ہے، مگر کام پورا نہ ہو اور اس نے پھر چار چھ روز اقامت کی نیت کر لی اس پر قصرواجب ہے یا نہیں؟
جواب :مسافر جب کسی کام کے لیے یا ساتھیوں کے انتظار میں دو چار روز یا تیرہ چودہ دن کی نیت سے ٹھہرایا یہ ارادہ ہے کہ کام ہو جائے گا تو چلا جائے گا اور آج کل آجکل کرتے برسوں گزر جائیں، جب بھی مسافر ہی ہے ، نماز قصر پڑھے جب تک اکٹھے پندرہ دن ٹھہرنے کی نیت نہ کرنے۔
سوال نمبر 10: اگر مسافر نے چار رکعت والی نماز پوری پڑھ لی تو کیا حکم ہے؟
جواب :اگر سہوا ایسا ہو گیا تو اخیر میں سجدئہ سہو کر لے، دو فرض ہو جائیں گے، اور دو نفل اور اگر قصداً چار پڑھیں اور دو پر قعدہ کیا تو فرض ادا ہوگئے اور پچھلی دو رکعتیں نفل ہوئیں مگر گنہگار ہو اور اگر دو رکعت پر قعدہ نہ کیا تو فرض ادا نہ ہوئے اور وہ نماز نفل ہوگئی ۔ فرض دوبارہ پڑھے۔
سوال نمبر 11: مسافر مقیم کی اقتداء کر سکتا ہے یا نہیں؟
جواب :وقت ختم ہونے کے بعد مسافر مقیم کی اقتداء نہیں کر سکتا، وقت میں کر سکتا ہے اور اس صورت میں مسافر کے فرض بھی چار ہو گئے۔ یہ حکم چار رکعتی نماز کا ہے اور جن نمازوں میں قصر نہیں ان میں وقت اور بعد وقت دونوں صورتوں میں اقتداء کر سکتا ہے۔
سوال نمبر 12: مقیم مسا فر کی اقتداء کر سکتا ہے یا نہیں؟
جواب :ادا اوقضا دونوں میں مقیم مسافر کی اقتداء کر سکتا ہے اور امام کے سلام کے بعد اپنی دو رکعتیں پڑھ لے اور ان رکعتوں میں قرات بالکل نہ کرے بلکہ بقدر فاتحہ چپ کھڑا رہے، البتہ اس صورت میں امام کو چاہیے کہ نماز شروع کرتے وقت اپنا مسافر ہونا ظاہر کر دے اور اگر شروع میں کہہ دیا ہے تب بھی یا بعد میں کہہ دے کہ اپنی نمازیں پوری کر لو، میں مسافر ہوں تاکہ جو لوگ اس وقت موجود نہ تھے انھیں بھی امام کا مسافر ہونا معلوم ہو جائے۔
سوال نمبر 13: مسافر چلتی ریل گاڑی میں نماز پڑھ سکتا ہے یا نہیں؟
جواب :چلتی ریل گاڑی پر فرض وواجب وسنت فجر نہیں ہوسکتے، ہاں نفل اور دوسری نمازیں ہو سکتی ہیں اس لیے کہ فرائض وغیرہ میں جگہ کا ایک رہنا اور نماز ی کا قبلہ رخ ہونا شرط ہے اور چلتی ہوئی ریل میں یہ دونوں باتیں مفقود ہیں لہٰذا جب گاڑی اسٹیشن پر ٹھہرے اس وقت یہ نمازیں پڑھے۔ وضو وغیرہ کا اہتمام پہلے سے رکھے اور اگر دیکھے کہ وقت جاتا ہے تو جس طرح بھی ممکن ہو پڑھ لے پھر جب موقع ملے اعادہ کر لے کہ جہاں من جہتہ االعباد کوئی رکن یا شرط مفقود ہو اس کا یہی حکم ہے ، یہی حکم ہوائی جہاز کا ہے اور ریل گاڑی کو بحری جہاز اور کشتی کے حکم میں تصور کرنا غلطی ہے کہ کشتی اگر ٹھہرائی بھی جائے جب بھی زمین پر نہ ٹھہرے گی اور ریل گاڑی ایسی نہیں ، اور کشتی پر بھی اسی وقت نماز جائز ہے۔ جب وہ بیچ دریا میں ہو، کنارہ پر ہو اور آدمی خشکی پر آسکتا ہو تو اس پر بھی جائز نہیں ہے۔