اور چونکہ اس کی فرضیت کا ثبوت دلیل قطعی سے ہے لہٰذا اس کا منکر کافر ہے ۔
سوال نمبر 2: جمعہ ادا کرنے کے لیے کتنی شرطیں ہیں؟
جواب :جمعہ پڑھنے کے چھ شرطیں ہیں، کہ ان میں سے ایک شرط بھی مفقود ہو (نہ پائی جائے ) تو جمعہ ہوگا ہی نہیں:
۱۔ شہر یا شہر کے قائم مقام بڑے گاؤں یا قصبہ میںہونا یعنی وہ جگہ جہاں متعدد کوچے اور بازار ہوں اوروہ ضلع یا پرگنہ ہو اور وہاں کوئی حاکم ہو کہ مظلوم کا انصاف ظالم سے لے سکے۔ یونہی شہر کے آس پاس جو جگہ شہر کی مصلحتوں کے لیے ہو جسے فنائے مصر کہتے ہیں جیسے قبرستان، فوج کے رہنے کی جگہ، کچہریاں اسٹیشن وہاں بھی جمعہ جائز ہے اور چھوٹے گاؤں میںجمعہ جائز نہیں توجو لوگ شہر کے قریب گاؤں میں رہتے ہیں انھیں چاہیے کہ شہر میں آکر جمعہ پڑھیں۔
۲۔ سلطان اسلام یا اس کا نائب جس نے جمعہ قائم کرنے کا حکم دیا اور جہاں اسلامی سلطنت نہ ہو وہاں جو سب سے بڑا فقیہ سُنی صحیح العقید ہ ہو، احکامِ شرعیہ جاری کرنے میں سلطان اسلام کے قائم مقام ہوتا ہے لہٰذا وہی جمعہ قائم کرے اور یہ بھی نہ ہو تو عام لوگ جس کو امام بنائیں۔ وہ جمعہ قائم کرے ۔عالم کے ہوتے ہوئے عوام بطورِ خود کسی کو امام نہیں بنا سکتے۔ نہ یہ ہو سکتا ہے کہ دو چار شخص کسی کو امام مقرر کر لیں ۔ ایسا جمعہ کہیں سے ثابت نہیں ۔
۳۔ وقت ظہر یعنی وقت ظہر میں نماز پوری ہو جائے تو اگر اثنائے نماز میں اگر چہ تشہد کے بعد عصر کا وقت آگیا تو جمعہ باطل ہو گیا ظہر کی قضا پڑھیں۔
۴۔ خطبہ جمعہ ، اور اس میں شرط یہ ہے کہ وقت میں ہو اور نماز سے پہلے اور ایسی جماعت کے سامنے جو جمعہ کے لیے شرط ہے اور اتنی آواز سے ہو کہ پاس والے سن سکیں، اگر کوئی امر مانع نہ ہو اور خطبہ و نماز میں اگر زیادہ فاصلہ ہو جائے تو وہ خطبہ کافی نہیں۔
۵۔ جماعت، یعنی امام کے علاوہ کم سے کم تین مرد۔
۶۔ اذنِ عام، یعنی مسجد کا دروازہ کھول دیا جائے کہ جس مسلمان کا جی چاہے آئے کسی کی روک ٹوک نہ ہو۔
سوال نمبر 3: خطبہ کسے کہتے ہیں؟
جواب :خطبہ ذکر الٰہی کا نام ہے۔ اگرچہ صرف ایک بار الحمد اللہ یا سبحٰن اللہ یا لآ اٰلہ الا اللہ کہا، فرض ادا ہو گیامگر اتنے ہی پر اکتفا ء کرنا مکروہ ہے اور چھینک آئی ، اس پر الحمد للہ کہا یا تعجب کے طور پر سبحٰن اللہ یا لآ الہ الا اللہ کہا تو فرض ادا نہ ہوا۔
سوال نمبر 4: خطبہ کا مسنون طریقہ کیا ہے؟
جواب :خطبہ میں یہ چیزیں سنت ہیں: خطیب کا پاک ہونا، منبر پر ہونا، خطبہ سے پہلے منبر پر بیٹھنا، خطبہ کے لیے سامعین کی طرف منہ اور قبلہ کی طرف پیٹھ کرکے کھڑا ہونا، خطبہ سے پہلے اعوذ باللہ آہستہ پڑھنا، اتنی بلند آواز سے خطبہ پڑھنا کہ لوگ سنیں، الحمد سے شروع کرنا، اللہ عزوجل کی ثناء کرنا، اللہ عزوجل کی وحدانیت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی شہات دینا، کم از کم ایک آیت تلاوت کرنا، حضور پر نور صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنا، پہلے خطبہ میں وعظ و نصیحت ہونا، اور دوسرے میں مسلمانوں کے لیے دعا کرنا اور حمد و ثنا و شہادت و درود کا اعادہ کرنا، دونوں خطبے ہلکے ہونا اور دونوں خطبوں کے درمیان بقدر تین آیت پڑھنے کے بیٹھنا۔
سوال نمبر 5: کون کون سی باتیں خطبہ میں مستحب ہیں؟
جواب :مستحب یہ ہے کہ دوسرے خطبہ میں آواز بہ نسبت پہلے کے پست ہو اور خلفائے راشدین و عمین مکر مین حضرت حمزہ و حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہم کا ذکر ہو۔
سوال نمبر 6: خطبہ میں سامعین کے لیے سنت کیا ہے؟
جواب :حاضرین جمعہ امام کی جانب متوجہ رہیں۔ جو شخص امام کے سامنے ہو تو امام کی طرف منہ کرے اور دائیں بائیں ہو تو امام کی طرف مڑ جائے ، اور امام سے قریب ہونا افضل ہے۔ مگر یہ جائز نہیں کہ امام سے قریب ہونے کے لیے لوگوں کی گردنیں پھلانگے۔ حدیث میں ہے ’’جس نے جمعہ کے دن لوگوں کی گردنیں پھلانگیں، اس نے جہنم کی طرف پل بنایا‘‘ البتہ اگر امام ابھی خطبہ کو نہیں گیا ہے اور آگے جگہ باقی ہے تو آگے جاسکتا ہے اور خطبہ شروع ہونے کے بعد مسجد میں آیا تو مسجد کے کنارے ہی بیٹھ جائے ۔ خطبہ سننے کی حالت میں دوزانو بیٹھے جیسے نماز میں بیٹھتے ہیں۔
سوال نمبر 7: خطبہ کے وقت کیا کیا باتیںناجائز یا منع ہیں؟
جواب :جو چیزیں نماز میں حرام ہیں وہ سب خطبہ کی حالت میں بھی حرام ہیں مثلاً کھانا پینا سلام جوابِ سلام وغیرہ اور جب خطیب خطبہ پڑھے تو حاضرین پر سننا اور چپ رہنا فرض ہے ، جو لوگ امام سے دور ہیں کہ خطبہ کی آواز ان تک نہیں پہنچتی انھیں بھی چپ رہنا واجب ہے اور جب خطیب خطبہ کے لیے کھڑا ہو اس وقت سے ختم نماز تک و اذکار تلاوتِ قرآن اور ہر قسم کا کلام منع ہے البتہ صاحب ترتیب اپنی قضا نماز پڑ ھ لے۔ یونہی جو شخص سنت یا نفل پڑھ رہا ہے وہ جلد جلدہ پوری کر لے اور حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا نامِ پاک خطیب نے لیا تو حاضرین دل میں درود شریف پڑھیں۔ زبان سے پڑھنے کی اس وقت اجازت نہیں اور اگر کسی کو بری بات کرتے دیکھیں تو ہاتھ یا سر کے اشارے سے منع کر سکتے ہیں ، زبان سے ناجائز ہے۔ ہاں خطیب امر بالمعروف کر سکتا ہے۔
سوال نمبر 8: جمعہ کی دوسری اذان کس وقت کہی جائے؟
جواب :خطیب جب منبر پر بیٹھے تو اس کے سامنے دوبارہ اذان کہی جائے اور سامنے سے مراد یہ نہیں کہ مسجد کے اندر منبر سے متصل ہو کہ مسجد کے اندر اذان کہنے کو فقہائے کرام منع کرتے اور مکروہ فرماتے ہیں اور اذانِ ثانی بھی بلند آواز سے کہیں کہ اس سے بھی اعلان مقصود ہے کہ جس نے پہلی نہ سنی اسے سن کر حاضر ہو اور خطبہ ختم ہو جائے تو فوراً اقامت کہی جائے ۔ خطبہ و اقامت کے درمیان دنیا کی بات کرنا مکروہ ہے۔
سوال نمبر 9: جمعہ کی پہلی اذان ہونے کے بعد کیا حکم ہے؟
جواب :جمعہ کی پہلی اذان ہوتے ہی خرید و فروخت حرام ہو جاتی ہے اور دنیا کے تمام مشغلے اور کاروبار جو ذکر الٰہی سے غفلت کا سبب ہوں، اس میں داخل ہیں، اذان ہونے کے بعد سب کو ترک کرنا لازم اور نمازکے لیے کرنا واجب ہے۔ یہاں تک کہ راستہ چلتے ہوئے اگر خرید و فروخت کی تو یہ بھی ناجائز ہے اور مسجد میں خرید و فروخت تو سخت گناہ ہے۔
نمازِ جمعہ کے لیے پیشتر سے جانا اور مسواک کرنا اور اچھے اور سفید کپڑے پہننا اور تیل اور خوشبو لگا نا اور پہلی صف ہی میں بیٹھنا مستحب ہے اور غسل سنت ۔
سوال نمبر 10: جمعہ واجب ہونے کے لیے کتنی شرطیں ہیں؟
جواب :جمعہ واجب ہونے کے لیے گیارہ شرطیں ہیں، ان میں سے ایک بھی معدوم ہو تو فرض نہیں پھر بھی اگر پڑھے گا تو ہو جائے گا۔
۱۔شہر میں مقیم ہو ۲۔صحت ،لہٰذا ایسے مریض پر کہ مسجد جمعہ تک نہ جاسکتا ہو یا چلے جانے میں مرض بڑھنے یا دیر میں اچھا ہونے کا قوی اندیشہ ہو، جمعہ فرض نہیں۳۔آزاد ہونا ۴۔مردہو نا ۵۔بالغ ہونا ۶۔عاقل ہونا اور یہ دونوں شرطیں خاص جمعہ کے لیے نہیں بلکہ ہر عبادت کے وجوب میں عقل و بلوغ شرط ہے ۷۔انکھیارا ہونا، لہٰذا نابینا پر جمعہ فرض نہیں، ہاں جو اندھا مسجد میں اذان کے وقت باوضو ہو اس پر جمعہ فرض ہے ۔یونہی جونابینا بلاتکلیف بغیر کسی کی مدد کے بازاروں ، راستوں میںچلتے پھرتے ہیں ان پر بھی جمعہ نماز فرض ہے ۔۸۔چلنے پر قادر ہونا، لہٰذا اپاہج پر جمعہ فرض نہیں ۹۔قید میں ہونا ۱۰۔بادشاہ یا چور وغیرہ کسی ظالم کا خوف نہ ہونا ۱۱۔مینہ یا آندھی یا اولے یا سردی کا نہ ہونا یعنی اس قدر کہ ان سے نقصان کا خوفِ صحیح ہو۔
سوال نمبر 11: جن پر جمعہ فرض نہیں وہ ظہر باجماعت پڑھ سکتے ہیں یا نہیں؟
جواب :جن پر جمعہ فرض نہیں انھیں بھی جمعہ کے دن شہر میں جماعت کے ساتھ ظہر پڑھنا مکروئہ تحریمی ہے خواہ جمعہ ہونے سے پیشتر جماعت کریں یا بعد میں، یونہی جنہیں جمعہ نہ ملا وہ ظہر کی نماز تن تنہا ادا رکریں، البتہ گاؤں میں جمعہ کے دن بھی ظہر کی نماز اذان واقامت کے ساتھ باجماعت پڑھیں۔
سوال نمبر 12: اردو میں خطبہ پڑھنا جائز ہے یا نہیں؟
جواب :عربی کے علاوہ کسی اور زبان میںخطبہ پڑھنا یا عربی کے ساتھ دوسری زبان خطبہ میں خلط کرنا سنتِ متواترہ اور مسلمانوں کے قدیمی طریقہ کے خلاف ہے۔ صحابہ کرام کے زمانہ میں عجم کے کتنے ہی شہر فتح ہو گئے، کئی ہزار مسجد یں بنائی گئیں، کہیں منقول نہیں کہ صحابہ نے ان کی زبان میں خطبہ فرمایا ہو، خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دربار اقدس میں رومی، حبشی، عجمی ابھی تازہ حاضر ہوئے ہیں، عربی کا ایک حرف نہیں سمجھتے مگر کہیں ثابت نہیں کہ حضور نے ان کی زبان میں خطبہ فرمایا ہو یا کچھ ان کی زبان میں فرمایا ہو، ایک حرف بھی ان کی زبان کا خطبہ میں منقول نہیں۔
اب رہا یہ اعتراض کہ پھر تذکیرووعظ سے فائد کیا؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ نوکری کے واسطے عمریں انگریزی میں گنواتے ہیں اور عربی زبان جو ایسی متبرک کہ اس میں ان کا قرآن، ان کا نبی عربی، ان کی جنت کی زبان عربی، اس کے لیے اتنی کوشش بھی نہ کریں کہ خطبہ سمجھ سکیں، اعتراض تو انھیں معترضین پر پڑے گا نہ کہ خطیب پر۔