سوال نمبر 1: نمازِ عید کس پر واجب ہے؟
جواب :عیدین دو ہیں ایک عید الفطر جو ماہِ رمضان المبارک کے اختتام پر شوا ل کی پہلی تاریخ کو ہوتی ہے۔ دوسری عید الاضحٰی، جو ماہ ذی الحجہ کی دسویں تاریخ کو ہوتی ہے، ان دونوں کی نماز واجب ہے مگر سب پر نہیں بلکہ انھیں پر جن پر جمعہ فرض ہے اور بلا وجہ عیدین کی نماز چھوڑنا گمراہی و بدعت ہے اور گاؤں میں پڑھنا مکروئہ تحریمی ہے۔
سوال نمبر 2: کیا ان نمازوں کے لیے بھی جمعہ کی طرح کچھ شرطیں ہیں؟
جواب :ہاں اس کی ادا کی وہی شرطیں ہیں جو جمعہ کے لیے ہیں۔ صرف اتنا فرق ہے کہ جمعہ میں خطبہ شرط ہے اور عیدین میں سنت ، دوسرا فرق یہ ہے کہ جمعہ کا خطبہ قبل از نماز ہے او ر عیدین کا بعد از نماز، اور عیدین میں نہ اذان ہے نہ اقامت ، صرف دوبار اتنا کہنے کی اجازت ہے کہ : ’’ الصلوٰۃ جامعۃ ‘‘
سوال نمبر 3: عید الفطر کے روز کیا کیا کام سنت یا مستحب ہیں؟
جواب :عید کے دن یہ امور مستحب ہیں: حجامت بنوانا، ناخن ترشوانا، غسل کرنا، مسواک کرنا، اچھے کپڑے پہننا، خوشبولگانا، صبح کی نماز مسجد محلہ میں پڑھنا، عید گاہ جلد چلے جانا، نماز سے پہلے صدقۂ فطرادا کرنا، عید گاہ پیدل جانا، دوسرے راستے سے واپس آنا، نماز کو جانے سے پیشتر تین یا پانچ یا کم و بیش مگر طاق کھجوریں ورنہ کوئی میٹھی چیز کھالینا ، خوشی ظاہر کرنا، آپس میں مبارک بارد ینا، عید گاہ کو اطمینان وقار اور نیچی نگاہ کئے ہوئے جانا، کثرت سے صدقہ دینا، بعد نماز عید مصافحہ و معانقہ کرنا۔
سوال نمبر 4: عید اضحی میں کیا کیا امور مستحب ہیں؟
جواب :عید اضحی تمام احکام میں عید الفطر کی طرح ہے، صرف ان باتوں میں فرق ہے اس میں مستحب یہ ہے کہ نماز سے پہلے کچھ نہ کھائے، اگرچہ قربانی نہ کرے اور کھا لیا تو کراہت نہیں اور راستہ میں بلند آواز سے تکبیر کہتا ہوا جائے۔
سوال نمبر 5: نمازِ عید ادا کرنے کی ترکیب کیا ہے؟
جواب :نمازِ عید کا طریقہ یہ ہے کہ دو ررکعت واجب عید الفطر یا عیدِ اضحی کی نیت کرکے کانوں تک ہاتھ اٹھائے اور اللہ اکبر کہہ کر ہاتھ باندھ لے اور پھر ثناء یعنی سبحٰنک اللھم پڑھے، پھر کانوں تک ہاتھ اتھائے اور اللہ اکبر کہتا ہوا ہاتھ چھوڑدے، پھر ہاتھ اٹھائے اور اللہ اکبر کہہ کر باندھ لے۔ اس کو یوں یاد رکھے کہ جہاں تکبیر کے بعد کچھ پڑھنا ہے وہاں ہاتھ باندھ لے اور جہاں کچھ پڑھنا نہیں وہاں چھوڑدے، پھر امام اعوذ اور بسم اللہ آہستہ پڑھ کر جہر کے ساتھ الحمد اور سورت پڑھے، پھر رکوع و سجود کرے اور دوسری رکعت کے لیے کھڑا ہو جائے اور دوسری رکعت میں پہلے الحمد و سورت پڑھے پھر تین بار کانوں تک ہاتھ لے جا کر اللہ اکبر کہے اور ہاتھ نہ باندھے اور چوتھی بار بغیر ہاتھ اٹھائے اللہ اکبر کہتا ہوا رکوع میں جائے اور رکعت پوری کرکے سلام پھیر دے۔ پھر نماز کے بعدامام دو خطبے پڑھے۔ عید الفطر کے خطبے میں صدقۂ فطر کے احکام تعلیم کرے اور عید اضحی کے خطبے میں قربانی کے احکام اور تکبیراتِ تشریق بتائے اور مقتدیوں پر جیسے اور خطبوں کا سننا بھی واجب ہے ، یونہی عیدین کے خطبوں کا سننا بھی واجب ہے۔
سوال نمبر 6: تکبیراتِ تشریق سے کیا مراد ہے؟
جواب :نویں ذی الحجہ کی فجر سے تیرھویں کی عصر تک ہر نمازِ فرض پنجگانہ کے بعد جو جماعت مستحبہ کے ساتھ ادا کی گئی۔ ایک بار تکبیر بلند آواز سے کہنا واجب ہے اور تین بار افضل ، اسے تکبیر تشریق کہتے ہیں وہ یہ ہے:
اللہ اکبر اللہ اکبر لآ الٰہ الا اللہ واللہ اکبر اللہ اکبر و للہ الحمد نفل و سنت اور وِتر کے بعد تکبیر واجب نہیں اور جمعہ کے بعد واجب ہے۔ اور عید کے بعد بھی کہہ لے اور منفرد پر اگرچہ واجب نہیں مگر وہ بھی کہہ لے۔
سوال نمبر 7: نمازِ عید کا وقت کب سے کب تک رہتا ہے؟
جواب :نمازِ عید کاوقت ایک نیزہ آفتاب بلند ہونے سے ضحوئہ کبریٰ یعنی نصف النہار شرعی تک ہے ، مگر عید الفطر میں دیر کرنا اور عید اضحی میں جلد پڑھ لینا مستحب ہے اور سلام پھیرنے سے پہلے زوال ہوگیا نماز جاتی رہی اور کسی عذر کے سبب عید کے دن نماز نہ ہو سکی تو دوسرے دن پڑھی جائے اور دوسرے دن بھی نہ ہوئی توعید الفطر کی نماز تیسرے دن نہیں ہوسکتی اور عید اضحی کی نماز عذر کی وجہ سے بارھویں تک بلاِ کراہت مؤخر کر سکتے ہیں۔ بارہویں کے بعد پھر نہیں ہو سکتی۔
سوال نمبر 8: کسی کی نمازِعید فو ت ہو جائے تو قضا ہے یا نہیں؟
جواب :امام نے نماز پڑھ لی اور کوئی شخص باقی رہ گیا خواہ وہ شامل ہی نہ ہوا تھا یا شامل تو ہوا مگر اس کی نماز کسی وجہ سے فاسد ہوگئی تو اگر دوسری جگہ مل جائے پڑھ لے ورنہ نہیں پڑھ سکتا۔ بہتر یہ ہے کہ یہ شخص چار رکعت چاشت کی نماز پڑھ لے۔
سوال نمبر 9: تکبیر تشریق کس پر واجب ہے؟
جواب :تکبیر تشریق اس پر واجب ہے جو شہر میں مقیم ہو یا جس نے اس کی اقتداء کی ہو اگر چہ مسافر یا گاؤں کا رہنے والا ہو، اور مقیم نے مسافر کی اقتداء کی تو مقیم پر واجب ہے اگر چہ امام پر واجب نہیں، اور مسبوق ولا حق پر بھی تکبیر واجب ہے مگر جب خود سلام پھیریں اس وقت کہیں۔