سوال نمبر 1: مصارفِ زکوٰۃ سے کیا مراد ہے؟
جواب :وہ لوگ جن پر مالِ زکوٰۃ صرف کرنا جائز ہے مصارفِ زکوٰۃ ہیں۔
سوال نمبر 2: زکوٰۃ کے مصارف کتنے ہیں؟
جواب :زکوٰۃ کے مصارف سات ہیں۔ فقیر، مسکین، عامل ، رقاب، غارم، فی سبیل اللہ اور ابن السبیل۔
سوال نمبر 3: شرع میں فقیر کسے کہتے ہیں؟
جواب :فقیر وہ شخص ہے جس کے پاس کچھ مال ہے مگر اتنا نہیں کہ نصاب کو پہنچ جائے یا مال تو بقدرِ نصاب ہے مگر حاجتِ اصیلہّ کے علاوہ کے علاوہ نہیں مثلاً رہنے کا مکان ، پہننے کے کپڑے وغیرہ ، یونہی اگر مدیون (قرضدار) ہے اور دَین (قرض) نکالنے کے بعد بقدرِ نصاب باقی نہیں رہتا تو وہ فقیر ہے اگرچہ اس کے پاس فی الوقت کئی نصابیں ہوں (ردالمحتار) ۔
سوال نمبر 4: عالم دین کو زکوٰۃ دے سکتے ہیں یا نہیں؟
جواب :عالم دین اگر صاحب نصاب نہیں تو اسے زکوٰۃ دے سکتے ہیں بلکہ اسے دینا جاہل کو دینے سے افضل ہے، (عالمگیری) مگر عالم دین کو دے تو اس کا اعزاز مدنظر رکھے، ادب کے ساتھ دے جیسے چھوٹے بڑوں کو نذر دیتے ہیں اور معاذ اللہ عالم دین کی حقارت اگر قلب میں آئی تو یہ ہلاکت اور بہت سخت ہلاکت ہے۔ (بہارِ شریعت)
سوال نمبر 5: مسکین کسے کہتے ہیں؟
جواب :مسکین وہ شخص ہے جس کے پاس کچھ نہ ہو، یہاں تک کہ وہ کھانے اور بدن چھپانے کے لیے اس کا محتاج ہے کہ لوگوں سے سوال کرے۔ (عالمگیری)
سوال نمبر 6: مسکین اور فقیر کو سوال کرنا جائز ہے یانہیں؟
جواب :مسکین کو سوال کرنا جائز ہے اور فقیر کو سوال ناجائز کہ جس کے پاس کھانے اور بدن چھپانے کو ہو، اسے بغیر ضرورت و مجبوری سوال کرنا حرام و ناجائز ہے۔ (عالمگیری)
سوال نمبر 7: گدا گروں کو زکوٰۃ دینے سے زکوٰۃ ادا ہوتی ہے یا نہیں؟
جواب :پیشہ ورگداگر تین قسم کے ہیں، ایک غنی مالدار جیسے اکثر جوگی اور سادھو، انہیں دنیا حرام اور ان کے دئیے سے زکوٰۃ ادا نہیں ہو سکتی فرض سر پر باقی رہے گا۔ دوسرے وہ کہ واقع میں فقیر ہیں مالکِ نصاب نہیں مگر تندرست ہیں اور مفت کا کھانا کھانے کے عادی ہیں اور اس کے لیے بھیک مانگتے پھرتے ہیں، انہیں بھیک دینا منع ہے کہ گناہ پر اعانت ہے لوگ اگر نہ دیں تو مجبور ہوں کچھ محنت مزدوری کریں مگر ان کے دئیے سے زکوٰۃ ادا ہو جائے گی جبکہ کوئی اور مانعِ شرعی نہ ہو کہ فقیر ہیں۔ اور تیسرے وہ عاجز و ناتواں کہ نہ مال رکھتے ہیں نہ کمانے پر قادر ہیں، انہیں بقدرِ حاجت سوال حلال ہے اور اس سے جو کچھ ملے ان کے لیے طےّب ہے یہ عمدہ مصارف زکوٰۃ سے ہیں اور انہیں دینا باعثِ اجر عظیم اور یہی وہ ہیں جنہیں جھڑکنا حرام ہے۔ (فتاویٰ رضویہ)
سوال نمبر 8: عامل سے کیا مراد ہے؟
جواب :عامل وہ ہے جسے بادشاہِ اسلام نے زکوٰۃ اور عشر وصول کرنے کے لیے مقرر کیا ہو، اسے کام کے لحاظ سے اتنا دیا جائے کہ اس کو اور اس کے مددگاروں کو متوسط (درمیانہ) طور پر کافی ہو مگر اتنا نہ دیا جائے کہ جو کچھ وہ وصول کرکے لایا ہے اس کے نصف سے زیادہ ہو جائے (درمختارو غیرہ) عامل کے لیے فقیر ہونا شرط نہیں۔
سوال نمبر 9: رِقاب سے کیا مراد ہے؟
جواب :رِقاب سے مراد ہے غلامی سے گردن رہا کرانا اور یہ اسلام ہی ہے جس نے سب سے پہلے غلاموں کی دستگیری کی اور غلاموں کی آزادی کے مختلف طریقے مقرر کئے انہیں میں سے ایک طریقہ یہ زکوٰۃ کا طریقہ ہے لیکن اب نہ غلام ہیں اور نہ اس مدّ میں اس رقم کے صرف کرنے کی نوبت آتی ہے۔
سوال نمبر 10: غارم سے کیا مراد ہے؟
جواب :غارم سے مراد مَدےُون (مقروض) ہے یعنی اس پر اتنا دَین ہو کہ اسے نکالنے کے بعد نصاب باقی نہ رہے اگرچہ اس کا اوروںپر باقی ہو مگر یہ لینے پر قادر نہ ہو مگر شرط یہ ہے کہ مدیون ہاشمی نہ ہو (ردالمحتار) اور یہ بھی اسلام کے ان عظیم احسانات میں سے ہے کہ اس نے قرض سے برباد ہونے والوں کے بچاؤ کا ایسا انتظام کر دیا، حالیہ زمانہ نے قرضداروں کی سہولت کے لیے بینک قائم کئے ہیں مگر دنیا جانتی ہے کہ سینکڑوں املاک غریبوں کے قبضہ سے نکل کر بینک کے قبضہ میں چلی گئی ہیں اور عوام میں افلاس و تنگدستی کی ترقی ہو گئی ہے۔
سوال نمبر 11: فی سبیل اللہ خرچ کا کیا مطلب ہے؟
جواب :فی سبیل اللہ کے معنی ہیں راہِ خدا میں خرچ کرنا، اس کی چند صورتیں ہیں مثلاً کوئی شخص محتاج ہے کہ جہاد میں جانا چاہتا ہے سواری اور زادراہ اس کے پاس نہیں تو اسے مالِ زکوٰۃ دے سکتے ہیں۔ کہ راہِ خدا میںد ینا ہے اگرچہ وہ کمانے پر قادر ہے۔
یاکوئی حج کو جانا چاہتا ہے اور اس کے پاس مال نہیں اس کو زکوٰۃ دے سکتے ہیں مگر اسے حج کے لیے سوال کرنا جائز نہیں۔
یا طالبِ علم کو علم دین پڑھتا یا پڑھنا چاہتا ہے اسے دے سکتے ہیں کہ یہ بھی راہِ خدا میں دینا ہے۔ بلکہ طالبِ علم سوا کرکے بھی مالِ زکوٰۃ لے سکتا ہے جب کہ اس نے اپنے آپ کو اسی کام کے لیے فارغ کر رکھا ہو اگرچہ کسب پر قادر ہو۔ یونہی ہر نیک کام میں زکوٰۃ کا مال صرف کرنا فی سبیل اللہ ہے جب کہ اس میں تملیک پائی جائے کہ بغیر تملیک فقیر زکوٰۃ ادا نہیں ہو سکتی۔ (درمختار وغیرہ)
سوال نمبر 12: اِبن السبیل سے کیا مراد ہے؟
جواب :اِبن السبیل کہتے ہیں مسافر کو اور یہاں سے مراد وہ مسافر ہے جس کے پاس مال نہ رہا، دیارِ وطن سے دور پردیس میں کون کس کا پرسانِ حال ہوتا ہے؟ شریعت نے ایسی حالت میں اسے اختیار دیا کہ وہ مال زکوٰۃ لے سکتے ہے اگرچہ اس کے گھر مال موجود ہے مگر اسی قدر لے جس سے حاجت پوری ہو جائے ، زیادہ کی اجازت نہیں مگر بہتر یہ ہے کہ قرض ملے تو قرض لے کر کام چلائے۔ (عالمگیری) یا مثلاً اس کے پاس کوئی سامان زائد از ضرورت ہے جس کی قیمت سے کام نکل سکتا ہے مثلاً گھڑی تو اسے بیچ دے اور قیمت کا م میں لائے اور سوال کی ذلّت سے بچے۔
سوال نمبر 13: ایسا مسافر گھر پہنچ کر بھی وہ مالِ زکوٰۃ کام میں لا سکتا ہے یا نہیں؟
جواب :مسافر جس نے بوقتِ ضرورت بقدرِ ضرورت مالِ زکوٰۃ لیا اور پھر اسے اپنا مال مل گیا مثلاً وہ اپنے گھر پہنچ گیا تو جو کچھ زکوٰۃ کا مال باقی ہے اب بھی اپنے صرف میں لاسکتا ہے۔ (ردالمحتار)
سوال نمبر 14: ان سات مصارف کے علاوہ اور بھی کوئی مصرفِ زکوٰۃ ہے؟
جواب :ہاں قرآنِ کریم نے مصارف زکوٰۃ کے علاوہ ایک او ر مصرف کا بھی زکر فرمایا: والمو لفۃ قلوبھمیعنی وہ جن کے دلوں کو اسلام سے الفت دی جائے اور دنیاوی مال و متاع سے ان کی ضرورتیں پوری کر دی جائیں اگرچہ وہ غیر مسلم ہوں تاکہ ان پر یہ حقیقت بھی کھل جائے کہ اسلام کس طرح ایک دوسرے کے ساتھ سلوک و ایثار کی تعلیم دیتا ہے لیکن امیر المٔومنین سےّدنا صدّیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور میں یہ آٹھویں قسم کے لوگ باجماع صحابہ ساقط ہو گئے کیونکہ جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے اسلام کو غلبہ دیا اور اور اسلام کی حقانیت آفتاب کی مانند روشن و آشکار ہو گئی تو اب اس طریق کار کی حاجت نہ رہی۔ (عامۂ کتب و تفاسیر)
سوال نمبر 15: زکوٰۃ ان ساتوں قسموں کو دی جائے یا کسی ایک کو بھی دے سکتے ہیں؟
جواب :زکوٰۃدینے والے کو اختیار ہے کہ ان ساتوں قسموں کو دے یا ان میں سے کسی ایک کو دے دے خواہ ایک قسم کے چند اشخاص کو یا کسی ایک فرد کو اور مالِ زکوٰۃ اگر بقدرِ نصاب نہ ہو تو ایک کو دینا افضل ہے۔ (عالمگیری)
سوال نمبر 16: ایک شخص کو بقدرِ نصاب مال دینا درست ہے یا نہیں؟
جواب :ایک شخص کو بقدرِ نصاب مال زکوٰۃ دے دینا مکروہ ہے مگر دے دیا تو زکوٰۃ بلاشبہ ادا ہو گئی اور یہ مکروہ بھی اس وقت ہے کہ وہ فقیرِ مدیون (مقروض) نہ ہو اور مدیون ہو تو اتنا دے دینا کہ دَین نکال کر کچھ نہ بچے یا نصاب سے کم بچے مکروہ نہیں، یونہی اگر وہ فقیر بال بچوں والا ہے کہ اگر چہ مالِ زکوٰۃ نصاب سے زیادہ ہے مگر اس کے اہل وعیال پرتقسیم کر یں تو سب کو نصاب سے کم ملتا ہے تو اس صورت میں بھی حرج نہیں۔ (عالمگیری)
سوال نمبر 17: وہ کون لوگ ہیں جنہیں زکوٰۃ نہیں دی جاسکتی؟
جواب : اپنی اصل یعنی ماں، باپ، دادی، نانا، نانی وغیرہ جن کی اولاد میں یہ ہے اوراپنی اولاد بیٹا، بیٹی، پوتا پوتی، نواسہ نواسی وغیرہ کو زکوٰۃ نہیں دے سکتے۔ عورت شوہر کو اور شوہر عورت کو زکوٰۃ نہیں دے سکتا۔ جو شخص مالکِ نصاب ہو اور نصاب حاجتِ اصیلہّ سے فارغ ، ایسے کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں۔ غنی مرد کے نابالغ بچے کو بھی زکوٰۃ نہیں دے سکتے۔ بنی ہاشم کو بھی زکوٰۃ نہیں دے سکتے، نہ غیرا نہیں دے سکے نہ ایک ہاشمی دوسرے ہاشمی کو۔ ذمّی کافر کو بھی زکوٰۃ دینا جائز نہیں۔(درمختار وغیرہ عامۂ کتب ) ۔
سوال نمبر 18: محتاج ماں باپ کو حیلہ کرکے زکوٰۃ دینا کیسا ہے؟
جواب :ماں باپ محتاج ہوں اور یہ حیلہ کرکے انہیں زکوٰۃ دینا چاہتا ہے کہ یہ کسی فقیر یعنی مصرف زکوٰۃ کو دے دے اور وہ اس کے ماں باپ کو ، یہ مکروہ ہے یونہی حیلہ کرکے اپنی اولاد کو دینا بھی مکروہ ہے۔ (ردالمحتار)
سوال نمبر 19: طلاق والی بیوی کو اس کا شوہر زکوٰۃ دے سکتا ہے یا نہیں؟
جواب :عورت کو طلاقِ بائن بلکہ تین طلاقیں دے چکا ہو جب تک عدت میں ہے، شوہر اسے زکوٰۃ نہیں دے سکتا، ہاں عدت پوری ہو جائے تو اب دے سکتا ہے۔ (ردالمحتار، درالمختار)
سوال نمبر 20: غنی مرد کے بالغ بچوں اور اس کی بیوی کو زکوٰۃ دے سکتے ہیں یا نہیں؟
جواب :غنی مرد کی بالغ اولاد اور غنی مرد کی بی بی کو زکوٰۃ دے سکتے ہیں یونہی غنی کے باپ کو بھی زکوٰۃ دی جاسکتی ہے جب کہ وہ فقیر ہوں یعنی مالکِ نصاب نہ ہوں اور مالکِ نصاب ہوں تو یہ مصرف زکوٰۃ ہی نہیں ۔ (عالمگیری وغیرہ)
سوال نمبر 21: مالکِ نصاب ہو تو اس کے بچے کو زکوٰۃ دینا کیسا ہے؟
جواب :جس بچہ کی ماں مالکِ نصاب ہے اگرچہ اس کا باپ زندہ نہ ہو۔ (بلکہ صرف ماں ہی اس کی کفیل ہے) اسے زکوٰۃ دے سکتے ہیں۔ (درِمختار)
سوال نمبر 22: بنی ہاشم جنہیں زکوٰۃ نہیں دے سکتے ان سے کیا مراد ہے؟
جواب :بنی ہاشم سے مراد حضرت علی و جعفر و عقیل اور حضرت عباس و حارث بن عبدالمطلب کی اولاد ہیں ان کے علاوہ جنہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اعانت نہ کی مثلاً ابو لہب کہ اگرچہ یہ کافر بھی حضرت عبدالمطلب کا بیٹا تھا مگر اس کی اولاد بنی ہاشم میں شمار نہ ہوگی۔ (عالمگیری)
سوال نمبر 23: جس کی ماں ہاشمی ہو اور باپ ہاشمی نہ ہو تو ایسے کو زکوٰۃ دینا کیسا ہے؟
جواب :جس کی ماں ہاشمی بلکہ سےّدانی ہو یعنی حضرت بی بی فاطمہ رضہ اللہ تعالیٰ عنہا کی اولاد سے ہو اور باپ ہاشمی نہ ہو تو وہ ہاشمی نہیں کہ شرع میں نسب باپ سے ہے لہٰذا ایسے شخص کو زکوٰۃ دے سکتے ہیں اگر کوئی دوسرا امر مانع نہ ہو۔ اور ماں کے سےّدانی ہونے سے جو لوگ سےّدبن بیٹھتے ہیں بحکم حدیثِ صحیح لعنت کے مستحق ہیں اللہ اپنی پناہ میں رکھے آمین۔ (درمختار)
سوال نمبر 24: جنہیں زکوٰۃ نہیں دے سکتے انہیں اور کوئی صدقہ دے سکتے ہیں یا نہیں؟
جواب :جن لوگوں کو زکوٰۃ دینا ناجائز ہے انہیں اور بھی کوئی صدقۂ واجبہ مثلاً نذر، کفارہ اور صدقۂ فطر دینا جائز نہیں ، عیدالفطر کے موقع پر شہروں میں قرب وجوار کے ہند و صدقہ فطر وصول کرنے گلیوں گلیوں ، محلوں محلوں میں مانگتے پھرتے ہیں انہیں ہر گز صدقۂ فطرنہ دیا جائے اور کسی ناواقفی کے باعث دے دیا تو پھر دوبارہ ادا کیا جائے۔
سوال نمبر 25: بد مذہب کو زکوٰۃ دینا جائز ہے یا نہیں؟
جواب :بد مذہب یعنی وہ کلمہ گو جو جمہور مسلمین یعنی اہلسنت و جماعت کے چاروں گروہوں حنفی، شافعی ، حنبلی، مالکیوں سے کٹ کر اپنی الگ راہ نکال لے وہ بدمذہب و بد عقیدہ ہے انہیں زکوٰۃ دینا جائز نہیں(درمختار وغیرہ) تو وہا بیہ زمانہ کو خدا و رسول جل و علاوہ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین و تحقیر کرتے اور شانِ رسالت گھٹاتے ہیں اگرچہ وہ اپنے آپ کو سنی حنفی کہیں انہیں زکوٰۃ دینا حرام اور سخت حرام ہے اور دی تو ہر گز ادا نہ ہوگی۔ (بہارِ شریعت)
سوال نمبر 26: عورت قیمتی جہیز کی مالک ہو تووہ زکوٰۃ لے سکتی ہے یا نہیں؟
جواب :عورت کو ماں باپ کے یہاں سے جو جہیز ملتا ہے اور وہ اس کی مالک ہوتی ہے اس میں دو طرح کی چیزیں ہوتی ہیں ، ایک حاجت کی جیسے خانہ داری کے سامان ، پہننے کے کپڑے استعمال کے برتن، اس قسم کی چیزیں کتنی ہی قیمت کی ہوں ان کی وجہ سے عورت غنی نہیں، دوسری وہ چیز یں جو حاجتِ اصیلہّ سے زائد ہیں زینت کے لیے دی جاتی ہیں جیسے زیور اور حاجت کے علاوہ اسباب اور برتن اور آنے جانے کے بیش قیمت بھار ی جوڑے ، ان چیزوں کی قیمت اگر بقدرِ نصاب ہے تو عورت غنی ہے، زکوٰۃ نہیں لے سکتی۔ (ردالمحتار)
سوال نمبر 27: جنہیں زکوٰۃ دے سکتے ہیں کیا ان کا فقیر ہونا ضروری ہے؟
جواب :جن لوگوں کی نسبت بیان کیا گیا کہ انہیں زکوٰۃ دے سکتے ہیں ان سب کا فقیر ہونا (صاحبِ نصاب نہ ہونا) شرط ہے سوا عامل کے کہ اس کے لیے فقیر ہونا شرط نہیںاور اِبن السبیل اگرچہ غنی ہو اس وقت حکمِ فقیر میں ہے ، باقی کسی کو جو حکمِ فقیر میں نہ ہو، زکوٰۃ نہیں دے سکتے۔ (درمختار وغیرہ)
سوال نمبر 28: اپنے خدمت گزار اور ایسے ہی کسی دوسرے کو زکوٰۃ دے سکتے ہیں یا نہیں؟
جواب :جو شخص اس کی خدمت کرتا اور اس کے یہاں کے کام کرتا ہے اسے زکوٰۃ دی یا اس کو دی جس نے خوشخبری سنائی یا اسے دی جس نے اس کے پاس ہدیہ بھیجا یہ سب جائز ہے۔ہاں اگر عوض کرکے دی تو ادا نہ ہوئی، عید، بقر عید میں خدام مرد عورت کو عیدی کہہ کر دی تو ادا ہو گئی۔ (عالمگیری)
سوال نمبر 29: فقیروں کی طرح گھومنے پھرنے رہنے والے کو زکوٰۃ دی تو ادا ہوئی یا نہیں؟
جواب :جو شخص فقیروں کی جماعت میں انہیں کی وضع میں رہتا ہے اور اس نے کسی سے سوال کیا یا فقیروں کی سی وضع قطع تو اس کی نہیں مگر وہ کسی سے سوال کر بیٹھا اور اس نے اسے غنی نہ جان کر مصرفِ زکوٰۃ سمجھ کر زکوٰۃ دے دی تو زکوٰۃ اد ا ہوگئی۔ (عالمگیری)
سوال نمبر 30: بے سوچے سمجھے اجنبی کو زکوٰۃ دے دی تو ادا ہوئی یا نہیں؟
جواب :اگر بے سوچے سمجھے کسی کو زکوٰۃ دے دی یعنی یہ خیال بھی نہ آیا کہ اسے دے سکتے ہیں یا نہیں اور بعد میں معلوم ہوا کہ اسے نہیں دے سکتے تھے تو ادا نہ ہوئی اور معلوم ہو اکہ وہ مصرفِ زکوٰۃ تھا تو ادا ہو گئی۔ (عالمگیری)
سوال نمبر 31: اگر زکوٰۃ دیتے وقت شک تھا کہ یہ مصرفِ زکوٰۃ ہے یا نہیں، پھر بھی اسے زکوٰۃ دے دی تو زکوٰۃ ادا ہوئی یا نہیں؟
جواب :اگر دیتے وقت شک تھا اور تحرّی نہ کی یعنی بے سوچے سمجھے اسے زکوٰۃ دے دی یا تحرّی کی مگر کسی طرف دل نہ جمایا یا غالب گمان ہوا کہ یہ زکوٰۃ کا مصرف نہیں پھر بھی اسے زکوٰۃ دے دی تو زکوٰۃ ادا نہ ہوئی، ہاں زکوٰۃ دینے کے بعد یہ ظاہر ہوا کہ واقعی وہ مصرفِ زکوٰۃ تھا تو ادا ہوگئی ۔ (عالمگیری)
سوال نمبر 32: زکوٰۃ وغیر ادا کرنے کا بہتر طریقہ کیا ہے؟
جواب :زکوٰۃ وغیرہ صدقات میں افضل یہ ہے کہ اوّلاً اپنے بھائی بہنوں کو دے پھر ان کی اولاد کو، پھر ماموں اور خالہ کو، پھر ان کی اولاد کی، پھر ذوی الارحام یعنی رشتہ والوں کو، پھر پڑوسیوں کو پھر اپنے شہر یا گاؤں کے رہنے والوں کو ۔ (عالمگیری) حدیث میںہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ اے اُمّتِ محمد ! قسم ہے اس کی جس نے مجھے حق کے ساتھ بھیجا۔ اللہ تعالیٰ اس شخص کے صدقہ کو قبول نہیں فرماتا جس کے رشتہ دار اس کے سلوک کرنے کے محتاج ہوں اور یہ غیروں کو دے ، قسم ہے کہ اس کی جس سے دستِ قدرت میں میری جان ہے، اللہ تعالیٰ اس کی طرف قیامت کے دن نظر نہ فرمائے گا‘‘۔ (ردالمحتار) بلکہ عزیزوں کو دینے میں دوگناثواب ہے۔
سوال نمبر 33: کسی ہنگامی ضرورت کے چند ہ میں زکوٰۃ دے سکتے ہیں یا نہیں؟
جواب :اس طریقہ سے زکوٰۃ ادا نہیں ہو سکتی،نہ اس طرح زکوٰۃ کی رقم سے چند ہ دینا جائز ظاہر ہے کہ جو لوگ ایسے چند ے کرتے ہیں وہ زکوٰۃ اور دوسری قسم کی تمام رقموں کو خلط ملط کر دیتے ہیں بلکہ مسلم و غیر مسلم کے اموال میں بھی تمیز نہیںکرتے تو اب وہ روپیہ جو اس رقم میں مل گیا زکوٰۃ کا کہاں رہا اور اسے زکوٰۃ میں یعنی زکوٰۃ کے مصرف میں خرچ کرنے کی گنجائش ہی کہاں رہی، ہاں اگر زکوٰۃ کی رقم چندہ میں دینے والاکسی قابلِ اعتماد فقیر کو دے کر اس کے قبضہ اور ملکیت میں دے دے اور وہ اپنی طرف سے اس چندہ میں دے دے تو اب ہر مصرف خیر میں صرف ہوسکتی ہے اور زکوٰۃ دہندہ اور فقیروں دونوں کو ثواب ملے گا۔ (فتاویٰ رضویہ)
سوال نمبر 34: زکوٰۃ کی رقوم دوسرے شہر کو بھیجنا کیسا ہے؟
جواب :دوسرے شہر کو زکوٰۃ بھیجنا مکروہ ہے مگر جب کہ وہاں اس کے رشتہ والے ہوں تو انہیں بھیج سکتا ہے۔ یا وہاں کے لوگوں کو زیادہ حاجت ہے یا زیادہ پرہیز گار ہیں یا مسلمانوں کے حق میں وہاں بھیجنا زیادہ نافع ہے یا طالبِ علم کے لیے بھیجے یا سالِ تمام سے پہلے بھیجے تو ان سب صورتوں میں دوسرے شہر کو بھیجنا بلا کراہت جائز ہے ۔ (عالمگیری)