سوال نمبر 1:مقامات و اصطلاحاتِ حج
ا۔ احرام: وہ بغیر سلا لباس جس کے بغیر آدمی میقات سے نہیں گزر سکتا یعنی ایک چادر نئی یا دھلی اوڑھنے کے لیے اور ایسا ہی ایک تہ بند کمر پر لپیٹنے کے لیے، یہ کپڑے سفید اور نئے بہتر ہیں یہ گویارب اللّعالمین جلّ جلالہ کی بارگاہ میں حاضری کی ایک وردی ہے، صاف ستھری، سادہ ، تکلف اور زیبائش سے خالی۔
۲۔ میقات: وہ جگہ کہ مکہّ معظمہ کو جانے والے کو احرام کے بغیر وہاں سے آگے بڑھنا جائز نہیں اگرچہ تجارت وغیرہ کسی اور غرض سے جاتا ہو۔
۳۔ تلبےْہ:یعنی لبےّک کہنا، لبےّک یہ ہے:
لبیک اللھم لبیکoلبیک لاشریک لک لبیکoان الحمد والنعمۃ لک o والملک o لا شریک لکo
احرام کے ایک مرتبہ زبان سے لبیک کہنا ضروری ہے اور نیت شرط۔
۴۔ حرمِ کعبہ: مکہّ معظمہ کے گردا گرد کئی کوس کا جنگل ہے ہر طرف حدیں بنی ہوئی ہیں ان حدود کے اندر وہاں کے وحشی جانوروں حتیٰ کہ جنگلی کبوتروں کو تکلیف وایذا، دنیا بلکہ تر گھاس اکھیڑنا تک حرام ہے۔ تمام مکہّ مکرمہ، منیٰ، مزدلفہ یہ سب حدود حرم میں ہیں البتہ عرفات داخلِ حرم نہیں۔
۵۔ حِلّ: حدودِ حرم کے بعد جو زمین میقات تک ہے اسے حلَِ کہتے ہیں۔
۶۔ طواف: مسجد الحرام میں خانۂ کعبہ کے اردگرد بطریق خاص چکر لگانے کا نام طواف ہے۔
۷۔ مطاف: مسجدِ الحرام ایک گول وسیع احاطہ ہے جس کے کنارے کنارے بکثرت دالان اور آنے جانے کے راستے ہیں۔ بیچ میں خانۂ کعبہ کے اردگرد ایک دائرہ ہے یہی مطاف ہے یعنی طواف کرنے کی جگہ۔
۸۔ رکن: خانۂ کعبہ کا گوشہ جہاں اس کی دو دیواریں ملتی ہیں جسے زاویہ کہتے ہے۔ کعبۂ معظمہ کے چار رکن ہیں۔
(۱) رکنِ اسود: جنوب و مشرق کے گوشہ میں، اسی میں زمین سے اونچا سنگِ اسود نصب ہے۔
(۲) رکنِ عراقی: شمال ومشرق کے گوشہ میں، دروازۂ کعبہ انہیں دورکنوں کے بیچ کی شرقی دیوار میں زمین سے بہت بلند ہے۔
(۳) رکنِ شامی: شمال و مغرب کے گوشہ میں، سنگِ اسود کی طرف منہ کرکے کھڑے ہوں توبیت المقدس سامنے پڑے گا۔
(۴) رکنِ یمانی: مغرب اور جنوب کے گوشہ میں۔
۹۔ ملتزم:مشرقی دیوار کا وہ ٹکڑا جو رکنِ اسود سے دروازۂ کعبہ تک ہے۔ طواف کے بعد مقامِ ابراہیم پر نماز ودعا سے فارغ ہو کر حاجی یہاں آتے اور اس سے لپٹتے اور اپنا سینہ و پیٹ اور رخسار اس پر رکھتے اور ہاتھ اونچے کرکے دیوار پر پھیلاتے ہیں۔
۱۰۔ میزابِ رحمت: سونے کا پرنالہ کہ رکنِ عراقی شامی کی بیچ کی شمالی دیوار پر جھت پر نصب ہے۔
۱۱۔ حطیم: اسی شمالی دیوار کی طرف زمین کا ایک حصہ جس کے گردا گرد ایک قوسی رکمان کے انداز کی چھوٹی سی دیوار دی گئی ہے اور دونوں طرف آمدورفت کا دروازہ ہے۔
۱۲۔ مُستَجار: رکن یمانی اور رکنِ اسود کے بیچ میں غربی دیوار کا وہ ٹکڑا جو ملتزم کے مقابل ہے ۔
۱۳۔ مستجاب: رکن یمانی اور رکن اسود کے بیچ میں جنوبی دیوار یہاں ستر ہززر فرشتے دُعا پر آمین کہنے کے لیے مقرر ہیں اس لیے اس کا نام مستجاب رکھا گیا ہے۔
۱۴۔ اضطباع: شروع طواف سے پہلے چادر کو داہنی بغل کے نیچے سے نکال کر دونوں کنارے بائیں مونڈھے پر اس طرح ڈال دینا کہ داہنا مونڈھا کھلا رہے۔
۱۵۔ رمل: طواف کے پہلے تین پھیروں میں جلد جلد چھوٹے قدم رکھنا اور شانے ہلانا جیسے کہ قوی و بہادر لوگ چلتے ہیں نہ کودنا نہ دوڑنا۔
۱۶۔ استِلام: دونوں ہتھیلیاں اور ان کے بیچ میں منہ رکھ کر حجرِ ا سود کو بوسہ دینا یا ہاتھ یا لکڑی سے چھو کر چوم لینے کا اشارہ کرکے ہاتھوں کو بوسہ دینا۔
۱۷۔ حجرِ اسود: یہ کالے رنگ کا ایک پتھر ہے حدیث میں ہے کہ حجرِ اسود جب جنت سے نازل ہوا دودھ سے زیادہ سفید تھا بنی آدمِ کی خطاؤں نے اسے سیاہ کر دیا(ترمذی) خانۂ کعبہ کے طواف کے شروع اور ختم کرنے کے لیے وہ ایک نشان کا کام دیتا ہے۔
۱۸۔ مقامِ ابراہیم: دروازۂ کعبہ کے سامنے ایک قبہ میں وہ پتھر ہے جس پر کھڑے ہو کر سےّدنا ابراہیم خلیل اللہ علیہ الصّلوٰۃ والسّلام نے کعبہ بنایا تھا ان کے قدمِ پاک کا اس پر نشان ہوگیا جو اب تک موجود ہے جسے اللہ تعالیٰ نے آیاتِ بنیات میں شمار فرمایا۔
۱۹۔ قبہّ زمزم شریف: یہ قبّہ مقامِ ابراہیم سے جنوب کو مسجد شریف ہی میں واقع ہے اور اس قبہّ کے اندر زمزم کا چشمہ ہے۔
۲۰۔ باب الصّفا ء: مسجد شریف کے جنوبی دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے جس سے نکل کر سامنے کوۂ صفا ہے۔
۲۱۔ صفا: کعبۂ معظمہ سے جنوب کو ہے یہاں زمانۂ قدیم میں ایک پہاڑ ی تھی کہ زمین میں چھپ گئی ہے اب وہاں قبلہ رخ ایک دالان سابنا ہے اور چڑھنے کی سیڑھیاں۔
۲۲۔ مَروہ: دوسری پہاڑی صفا سے جانبِ شرق تھی یہاں بھی اب قبلہ رخ دالان سا بنا ہے اور سیڑھیاں صفا سے مروہ تک جو فاصلہ ہے اب یہاں بازار ہے صفا سے چلتے ہوئے داہنے ہاتھ کو دکانیں اور بائیں ہاتھ کو احاطۂ مسجد حرام ہے۔
۲۳۔ مِیلَینِ اخضَرین: اس فاصلہ کے وسط میں جو صفا سے مروہ تک ہے۔ دیوارِ حرم شریف ہیں دو سبز میل نصب ہیں جیسے میل کے شروع میں پتھر لگا ہوتا ہے۔ اب تو وہاں سبز رنگ کے ٹیوب بجلی کے ہمیشہ شب و روز روشن رہتے ہیں۔
۲۴۔ مَسعیٰ: وہ فاصلہ کہ ان دونوں نشانوں کے درمیان ہے اس فاصلہ کو دوڑ کر طے کیا جاتا ہے مگر نہ حد سے زائد دوڑتے نہ کسی کو ایذائے دیتے۔
۲۵۔ سعی: صفا سے مروہ اور پھر مروہ سے صفا کی طرف جانا آنااور میلینِ اخضرین کے درمیان دوڑنا سعی ہے۔
۲۶۔ حَلق: سارا سر منڈانا اور یہ افضل ہے۔
۲۷۔ تقصیر: بال کتروان کہ اس کی اجازت ہے۔
۲۸۔ وقوفِ عرفہ: نویں ذی الحجہ کو عرفات میں ٹھہرنا اور اللہ کے حضور زاری اور خالص نیت سے ذکر و لبیک و دعا و درود و استغفار اور کلمہ توحید میں مشغول رہنا اور نماز ظہرو عصر ادا کرنا اور نماز سے فراغت کے بعد بالخصوص غروبِ آفتاب تک دعا میں اپنا وقت گزارنا۔
۲۹۔ موقف: عرفات میں وہ جگہ کہ نماز کے بعد سے غروب آفتاب تک وہاں کھڑے ہو کر ذکر و دعا کا حکم ہے۔
۳۰۔ بَطْنِ عَرفہ: عرفات میں حرم کے نالوں میں سے ایک نالہ ہے مسجد نمرہ کے مغرب کی طرف یعنی کعبہ معظمہ کی طرف ، یہاں جائز نہیں یہاں قیام یا وقوف کیا تو حج ادا نہ ہوگا۔
۳۱۔ مسجدِ نمرہ: میدانِ عرفات کے بالکل کنارہ پر ایک عظیم مسجد ہے اس کی مغربی دیوار اگر گرے تو بطن میں گر ے گی۔
۳۲۔ جیلِ رحمت: عرفات کا ایک پہاڑ زمین سے تقریباً ۳۰۰ فت اونچا اور سطح سمندر سے ۳۰۰فٹ اونچا ہے اسے موقفِ اعظم بھی کہتے ہیں اسی کے قریب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا موقف ہے جہاں سیاہ پتھروں کا فرش ہے۔
۳۳۔ مُزْ دَلفہ: عرفات اور منیٰ کے درمیان ایک کشادہ میدان ہے عرفات سے تقریباً تین میل دور یہاں سے منیٰ کا فاصلہ بھی تقریباً اتنا ہی ہے کہتے ہیں کہ عرفات میں قبولِ توبہ کے بعد حضرت آدم اور اماں حوا علیہما السلام مزدلفہ ہی میں ملے تھے۔
۳۴۔ مازنین: عرفات اور مزدلفہ کے پہاڑوں کے درمیان ایک تنگ راستہ ہے۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم عرفات سے مزدلفہ اسی راستے تشریف لائے تھے۔
۳۵۔ مشعرِ حرام: اس خاص مقام کا نام ہے جو مزدلفہ کی دو پہاڑیوں کے درمیان ہے اور خود سارے مزدلفہ کو بھی مشعرِ حرام کہتے ہیں۔ مزدلفہ میں حضور و کے وقوف کی جگہ گنبد بنادیا گیا تھا آج کل یہاں ایک مسجد بھی ہے جسے مسجد مشعرا لحرام کہا جاتا ہے مشعر حرام کو قزح بھی کہتے ہیں۔
۳۶۔ وادیٔ محشر: یہ وہی مقام ہے جہاں اصحابِ فیل کے ہاتھی تھک کر رہ گئے اور مکہّ معظمہ کی طرف آگے نہ بڑھ سکے اور سب ہلاک ہو گئے۔
۳۷۔ مِنیٰ : ایک وسیع اور کشادہ میدان جو پہاڑوں کے دامن میں واقع ہے مزدلفہ سے یہاں آکر رمی جمار، قربانی وغیرہ افعال ادا کئے جاتے ہیں۔
۳۸۔ مسجدِ خَیف:منیٰ کی مشہور اور بڑی مسجد کا نام ہے خیف وادی کو کہتے ہیں کہا جا تا ہے کہ اس مسجد میں(70) ستر نبی آرام فرما رہے ہیں مسجدِ خیف پر ہشت پہلو قبہّ ہے اس قبہّ کی جگہ سے متعلق کہا جاتا ہے کہ بہت سے پیغمبروں نے نمازیں یہاں ادا فرمائی ہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا خیمہ بھی یہاں نصب کیا گیا تھا۔
۳۹۔ رمی: منیٰ میں واقع تین جمروں پر کنکریاں مارنے کو کہتے ہیں۔
۴۰۔ جمِار: منیٰ کے میدان میں پتھر کے تین ستون کھڑے ہیں ان ہی کا نام جمار ہے ان میں سے پہلے کا نام جمرۂ اولیٰ، دوسرے کا نام جمرۂ وسطیٰ اور تیسرے کا نام جمرۂ عقبیٰ ہے یہ مکہّ معظمہ سے منیٰ آتے ہوئے پہلا منارہ ہے۔ (عامۂ کتب فتاویٰ و شرح و متون)
سوال نمبر 2: مکہّ اور مکہّ کے قریب و جوار میں قابلِ زیارت مقامات کون کونسے ہیں؟
جواب :یہ مقامات اگرچہ اب اپنی اسل شکل و صورت میں باقی نہین تاہم ان کی زیارت اور وہاں پہنچ کر اپنے اور دوسرے مسلمانوں کے لیے دعائے خیر میں مفت کی برکات حاصل ہوتی ہیں تو ان سے محرومی کا داغ لیے آدمی کیوں پلٹے؟ بہر حال وہ مقامات یہ ہیں:
۱۔ جنتُ المعلّٰی: یہ مکہّ مکر مہ کا مشہور قبر ستان ہے منیٰ کے راستے میں میں مسجد الحرام سے تقر یباً ایک میل دور یہ قبرستان مدینہ منورہ کے قبرستان جنۃ البقیع کے علاوہ دنیا کے تمام قبرستان سے افضل ہے بعض صحابہ و تابعین او ر بہت سے اولیائے کا ملین و صالحین یہاں زیر زمین آرام فرما رہے ہیں اب اس قبرستان کے بیچ میں سڑک ہے مکہ معظمہ کی طرف والا حصہ نیا ہے اور منیٰ کی جانب والا پرانا ، حضرت بی بی خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا مزار شریف پرانے حصے میں واقع ہے۔
۲۔ مکانِ خدیجہ الکبریٰ: یہ وہ جگہ ہے جہاں ہجرت کے زمانہ تک حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا قیام رہا یہیں حضرت فاطمۃ الزہراء کی پیدائش ہوئی۔ رضی اللہ تعالیٰ عنہا۔
۳۔ مولد شریف: یہ وہ مقدس گھر ہے جہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت شریف ہوئی اب اس مقام پر ایک لائبریری قائم کر دی گئی ہے یہ شعبِ علی میں ہے۔
۴۔ مکانِ صدیقِ اکبر: حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس میں بہت مرتبہ تشریف لے گئے ہجرت کے لیے اسی مکان سے غارِ ثور تک روانگی عمل میں آئی اب یہاں آپ کے نام پر ’’مسجدِ ابوبکر‘‘ ہے۔
۵۔ دارارقم: یہ جگہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا تبلیغی مزکز رہی ہے، حضرت عمرِ فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہیں اسلام لائے تھے یہ جگہ صفا کی سمت میں بنے ہوئے مسجد حرام کے دروازوں میں سے پہلے دروازے کے سامنے ہے اس دروازے کی محراب پر ’’ دارارقم‘‘ لکھا ہوا ہے۔
۶۔ غارِ ثور: یہ غار مکہّ مکرمہ سے تقریباً تین میل دور جبلِ ثور میں ہے۔ میل ڈیڑھ میل کی چڑھائی کے بعد یہ غار آتا ہے سیڑھیاں بنی ہوئی ہیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم مکہّ معظمہ سے ہجرت فرما کر اسی غار میں تین دن رات ٹھہرے تھے۔
۷۔ غارِ حرا: یہ غارِ جِبلِ نور میں واقع ہے چڑھائی زیادہ نہیں تقریباً ۱۵ فٹ لمبا اور دس فٹ چوڑا ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر پہلی وحی اسی غار میںنازل ہوئی غار کے قریب ترکقوں کے زمانہ کا بنا ہو ا ایک چھوٹا سا تالاب ہے یہ غار قبلہ رخ ہے۔
۸۔ غارِ مرسَلات: یہ غار مسجد خیف کے قریب عرفات جاتے ہوئے دائیں ہاتھ پر ہے یہیں سورئہ مرسلات نازل ہوئی اسی غار کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس میں حضورِ جانِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے سرِ اقدس کا نشان ہے۔
ان مقامات کے علاوہ مکہّ اور اس کے اردگرد حسبِ ذیل مقامات قابلِ زیارت ہیں:
مسجدِ حمزہ، مسجدِ جن، مسجدِشجرہ، مسجدِ خالد، مسجدِ سوق اللیل، مسجدِ اجابت، مسجدِ جبلِ ابو قبیس، مسجدِ عائشہ، مسجد کوثر، مسجد بلال، مسجدِ عقبہ، مسجدِ جعراز، مسجدِ النحر، مسجدِ الکبش یامنحر ابراہیم ، مسجدِ شق القمر وغیرہ ۔
سوال نمبر 3: مدینہ طیبہ میں مقامات زیارت کون کون سے ہیں؟
جواب :روضۂ انور حضور پر نور صلی اللہ علیہ وسلم اور خود مسجد النبی کا چپہ چپہ بالخصوص مسجدِ قدیم کا گوشہ گوشہ جہاں قدم پر قدم رکھتے ہیں کہ ’’ جااینجاست‘‘۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا منبر اطہر، پھر جنت کی کیاری کہ منبر و حجرئہ منورہ کے درمیان ہے پھر مسجد شریف کے ستون کہ محل برکات ہیں خصوصاً بعض میں خاص خصوصیت۔
جنت البقیع: مدینہ منورہ کا عظیم قبرستان جس میں تقریباًدس ہزار صحابۂ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم مدفون ہیں اور تابعین و تبع تابیعن اور اولیاء وعلماء و صلحاء وغیرہ ہم کی گنتی نہیں، یہیں اکثر ازواجِ مطہرات اور ائمہِ اطہار میںسے سےّدنا امام حسن مجتبیٰ وامام زین العابدین وامام محمدباقرو امام جعفر صادق رضی اللہ عنہم کے مزاراتِ طیبہ ہیں ۔ افسوس کہ اب ان مزارات کے نشانا ت بھی مٹا دئیے گئے ہیں۔
مسجدِ قبا: کہ اس میں دو رکعت نماز عمرہ کی مانند ہے احادیث سے ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہر ہفتہ قبا تشریف لے جاتے کبھی سوار کبھی پیدل۔
مسجد القبلتین: تحویلِ کعبہ کا حکم بحالتِ نماز اسی مسجد میں نازل ہوا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نمازِ ظہر صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ اسی مسجد میں ادا فرما رہے تھے دو رکعت نماز بیت المقدس کی جانب منہ کرکے ادا فرما بھی چکے تھے کہ حکمِ الٰہی تحویلِ قبلہ کا نازل ہوا۔ تعمیل حکمِ الٰہی میں آپ دورانِ نماز ہی بیت المقدس سے خانہِ کعبہ کی طرف پھر گئے اور باقی دو رکعتیں ادا فرما کر نماز پوری کی اسی لیے یہاں دو محرابیں موجود ہیں ایک بیت المقدس کی جانب اور دوسری خانۂ کعبہ کی سمت۔
ان کے علاوہ اور بھی مساجد، کریمہ ہیں جن سے اسلامی تاریخ وابستہ ہے مثلاً مسجد کبیر، مسجدِ جمعہ، مسجدِ شمس، مسجدِ بنی قریظہ، مسجدِ ابراہیم، مسجدِ ظفر، مسجدِ الاجابت، مسجدِ فتح ، مسجدِ بنی حرام، مسجد زباب وغیرہ۔
شہدائے اُحد: کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہر سال کے شروع میں قبورِ شہدائے اُحد پر آتے ، یہیں سےّد الشہداء حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مزار شریف ہے۔
مدینۂ طیبہ کے کنویں: جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہیں یعنی کسی سے وضو فرمایا یا کسی کا پانی پیا اور کسی میں لعابِ دہن ڈالا ، مثلاً بےئرارلیس، بےئر عرُس، بےئر بضاعہ، بےئرحا، بےئر رومہ، بےئر ا ہاب، بےئر انس بن مالک ، بےئر بُصہ، بئیر عہن۔ ان میں کچھ باقی ہیں کچھ بے نشان ہو گئے۔