جواب :خاتم النبیین یا ختم المرسلین کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم پر سلسلہ نبوت ختم کر دیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں یا بعد میں کوئی نیا نبی نہیں ہو سکتا ۔ آپ کی ذات پاک پر نبوت کا خاتمہ ہو گیا۔
سوال نمبر 2: ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت عام ہے یا خاص؟
جواب :حضور کی نبوت و رسالت سید نا آدم علیہ السلام کے زمانہ سے روز قیامت تک تمام مخلوقات کو عام ہے۔ علماء کرام فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت تمام جن و انسان اور فرشتوں کو شامل ہے بلکہ تمام حیوانات ، جمادات، نباتات آپ کی رسالت کے دائرہ میں داخل ہیں تو جس طرح انسان کے ذمہ حضور کی اطاعت فرض ہے یونہی ہر مخلوق پر حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمانبرداری ضروری ہے اور یہ سب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی امت ہیں۔
سوال نمبر 3: کیا انبیاء ومرسلین بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی امت ہیں؟
جواب : جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم بادشاہ زمین و آسمان ہیں اور خدا کی ساری مخلوق کے لیے نبی ورسول بنا کر بھیجے گئے ہیں تو تمام نبیوں اور رسولوں کے بھی آپ رسول ہوئے اور جب حضور ان کے رسول ہوئے تو یہ حضرات آپ ہی حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی ٹھہرے۔
سوال نمبر 4: اللہ تعالیٰ نے حضور کو کتنے قسم کے اوصاف دئیے؟
جواب :حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض خصائص یہ ہیں:
۱۔ سب سے پہلے جس کو نبوت ملی وہ آپ ہیں۔
۲۔ قیامت کے روز جو سب سے پہلے قبر سے اٹھے گا وہ آپ ہی ہوں گے۔
۳۔ قیامت کا دروازہ جو سب سے پہلے کھولے گا وہ آپ ہی ہوں گے۔
۴۔ شفاعت کی اجازت سب سے پہلے آپ ہی کو دی جائے گی۔
۵۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک جھنڈا مرحمت ہوگا جس کو ’’لو ا الحمد‘‘ کہتے ہیں۔ تمام مومنین حضرت آدم علیہ السلام سے آخر تک سب اسی کے نیچے ہوں گے۔
۶۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے لیے ساری زمین، پاک کرنے والی او ر مسجد ٹھہری۔
۷۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے لیے مال غنیمت حلال کیا گیا۔
۸۔ حضور ہی پیشوائے مرسلین اور خاتم النبیین ہیں۔
۹۔ روز محشر حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم آگے ہوں گے اور ساری مخلوق پیچھے پیچھے۔
۱۰۔ پل صراط سے سب سے پہلے حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کو لے کر گزر فرمائیں گے۔
۱۱۔ اور انبیاء کسی ایک قوم کی طرف بھیجے گئے اور حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم تمام مخلوق کی طرف رسول بنا کر بھیجے گئے۔
۱۲۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ عزوجل مقام محمود عطا فرمائے گا کہ تمام اولین و آخرین (اگلے پچھلے) حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حمد و ستائش کریں گے۔
۱۳۔ آپ کو جسم کے ساتھ معراج ہوئی۔
۱۴۔ اللہ تعالیٰ نے تمام نبیوں سے آپ پر ایمان لانے اور آپ کی مدد کرنے کاوعدہ لیا۔
۱۵۔ آپ کو حبیب اللہ کا خطاب ملا۔ تمام جہاں اللہ کی رضا چاہتا ہے اور اللہ تعالیٰ آپ کی رضا کا طالب ہے سبحان اللہ!
ان کے علاوہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے خصائص اور بھی ہیں جن کا بیان سیرت کی کتابوں میں مذکور ہے۔
سوال نمبر 5: حضور صلی اللہ علیہ وسلم عرب کے کس خاند ان سے ہیں؟
جواب :حضور صلی اللہ علیہ وسلم خاندان قریش سے ہیں۔ یہ خاندان عرب میں ہمیشہ سے ممتاز و معزز چلا آتا تھا۔ عرب کے تمام قبیلے اور خاندان اس خاندان کو اپنا سردار مانتے تھے۔ اسی خاندان قریش کی ایک شاخ بنی ہاشم تھی جو قریش کی دوسری تمام شاخوں سے زیادہ عزت رکھتی تھی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم خود ارشاد فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت اسماعیل کی اولاد میں سے کنانہ کو برگزیدہ بنایا اور کنانہ میں سے قریش کو اور قریش میں سے بنی ہاشم کو اور بنی ہاشم میں سے مجھ کو برگزیدہ بنایا۔ جبریل علیہ السلام فرماتے ہیں کہ میں دنیا کے مشرق و مغرب میں پھرا مگر بنی ہاشم سے افضل کوئی خاندان نہیں دیکھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ہاشمی اسی واسطے کہا جاتا ہے کہ آپ نبی ہاشم میں سے ہیں۔
سوال نمبر 6: ہاشم کون تھے جن کو اولاد بنی ہاشم کہلاتی ہے؟
جواب :حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پردادا کا نام ہاشم ہے۔ اور یہ بیٹے عبد مناف کے، ہاشم کا اصلی نام عمر و تھا۔ یہ نہایت مہمان نواز تھے۔ ان کا دستر خوان ہر وقت بچھا رہتا تھا۔ ایک مرتبہ قحط کے زمانہ میں یہ ملک شام سے خشک روٹیاں خرید کر مکہ میں لائے اور روٹیوں کا چورہ کر کے اونٹ کے شوربے میں ڈال کر لوگوں کو پیٹ بھر کر کھلایا۔ اس دن سے ان کو ہاشم (روٹیوں کا چورہ کرنے والا) کہنے لگے۔ ہاشم کی پیشانی میں نور محمدی چمکتا تھا۔ اسی لیے لوگ ان کی بڑی عزت کرتے تھے۔
سوال نمبر 7: حضرت عبدالمطلب کون تھے؟
جواب :حضرت عبدالمطلب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نور ان کی پیشانی میں چمکتا تھا۔ اور ان کے جسم سے مشک کی سی خوشبو آتی تھی۔ جب قریش کو کوئی حادثہ پیش آتا تو ان کے وسیلہ سے دعا مانگتے اور وہ دعا قبول ہوتی تھی۔ آپ نے ایک مرتبہ دعا مانگی تھی کہ اگر میں اپنے سامنے دس بیٹوں کو جو ان دیکھ لو ں تو ان میں سے ایک کو خدا کی راہ میں قربان کروں گا۔ جب مراد برآئی تو نذر پوری کرنے کے لیے آپ دس بیٹیوں کو لے کر خانہ کعبہ میں آئے اور یہ تجویز پایا کہ ان دسوں کے نام پر قرعہ ڈالا جائے جس کے نام قرعہ نکلے اسی کو قربان کر دیا جائے ۔ اتفاق سے عبداللہ کا نام نکلا جو ہمارے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے والدعبدالمطلب کو سب بیٹیوں سے پیارے تھے ۔ لیکن قریش آپ کا قربان ہونا پسند نہ آیا ۔ آخر کار عبداللہ اور دس انٹوں پر قرعہ ڈالا گیا۔ مگر قرعہ عبداللہ ہی کے نام پر نکلا۔ پھر دس اونٹ اور بڑھائے گئے مگر نتیجہ وہی نکلا ۔ آخر کار بڑھاتے بڑھاتے سو اونٹوں پر نکلا۔ چنانچہ عبدالمطلب نے سو اونٹ قربان کئے اور عبداللہ بچ گئے۔ اسی واسطے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انا ابن الذ بیحین میںدوذ بیح (اسماعیل اور عبداللہ) کا بیٹا ہوں۔
سوال نمبر 8: اہل عرب حضور کو کیسا سمجھتے تھے؟
جواب :رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اگرچہ اپنی نبوت کو ظاہر نہ کیا تھا۔ لیکن آپ کی دیانت اور امانت پر تمام اہل مکہ کو اعتبار تھا اور ہر ایک آپ کے پاکیزہ اخلاق اور پاک زندگی کا مدح خواں تھا۔ لوگوں میں آپ امین کے نام سے مشہور تھے۔
خانہ کعبہ کی تعمیر کے وقت جب حجر اسود رکھنے کا وقت آیا تو قبیلوں میں سخت جھگڑاپیدا ہوا۔ ہر ایک قبیلہ چاہتا تھا کہ ہم حجر اسود کو اٹھا کر اس کی جگہ نصب کریں۔ آخر کار چار دن کی کش مکش کے بعد یہ طے ہوا کہ کل صبح جو شخص اس مسجد میں داخل ہو اس پر فیصلہ چھوڑا جائے۔ دوسرے روز سب سے پہلے داخل ہونے والے ہمارے آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ دیکھتے ہی سب پکار اٹھے ’’یہ امین ہیں، ہم ان پر راضی ہیں‘‘ چنانچہ آپ نے ایک چادر بچھا کر اس میں حجرا سود رکھا۔ پھر فرمایا کہ ہر طرف والے ایک سردار انتخاب کر لیں اور وہ چاروں سردار چادر کے چاروں کونے تھام کر اوپر اٹھائیں۔ اس طرح جب وہ چادر اوپر پہنچ گئی تو حضرت نے اپنے دست مبارک سے حجراسود اٹھا کر دیوار میں نصب کر دیا۔ اور وہ سب خوش ہوگئے۔ اس وقت عمر مبارک پنتیس سال تھی۔
اللھم صل وسلم وبارک علیہ واٰلہ ابداO