جواب :ہمارا ایمان ہے اور یہ ایمان قرآن و حدیث کی تعلیم پر مبنی ہے کہ اللہ عزوجل نے انبیاء ومرسلین میں بعض کو بعض پر فضیلت دی اورحضور سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کو ان سب انبیاء و مرسلین پر رفعت و عظمت بخشی ، قرآنِ کریم کا ارشاد گرامی ہے ورفع بعضھم درجٰتِِ oاور ان رسولوں میں بعض کو درجوں بلند فرمایا۔
ائمہ فرماتے ہیں کہ یہاں اس بعض سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم مراد ہیں اور یوں مبہم، بلانام لیے ذکر فرمانے میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ان کا افضل المرسلین ہونا ایسا ظاہر و مشتہر ہے کہ نام لویانہ لو، انہیں کی طرف زہن جائے گا اور کوئی دوسرا خیال میں نہ آئے گا، توخصائصِ مصطفےٰ سے مراد وہ فضائل و کمالات ہیں جن کے باعث حضور المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام انبیاء و مرسلین وملائکہ مقربین اور تمام مخلوقاتِ الٰہی پر فضیلت بخشی گئی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے افضل و اعلیٰ و بلند بالا فرمایاگیا، وہ حضور ہی کے ساتھ خاص ہیں کسی اور کا ان میں حصہ نہیں۔
سوال نمبر 2: خصائصِ مصطفےٰ میں کون کون سے فضائل و کمالات کو شمار کیا گیاہے؟
جواب :حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے ان خاص فضائل و کمالات کو پوری وسعت کے ست کس کی مجال اور کس میں طاقت ہے کہ بیان کرسکے، ان کا رب کریم ان کا چاہنے والا، ان کی رضا کا طالب جل جلا لہ و عم نوالہ ہی اپنے حبیب کی خصوصیات کا جاننے والاہے۔ ہمارا تو اعتقاد یہ ہے کہ ہر کمال ہر فضل و خوبی میں، انہیں تمام انبیاء ومرسلین پر فضیلتِ تامہ حاصل ہے کہ جو کسی کو ملا وہ سب انہیں سے ملا اور جو انہیں ملا وہ کسی کو نہ ملا۔
آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری
بلکہ انصافاً جو کسی کو ملا آخرکس سے ملا؟ کس کے ہاتھ سے ملا؟ کس کے طفیل میں ملا؟ اسی منبعِ ہر فضل و کرم ، باعثِ ایجادِ عالم سے (ﷺ) ۔
سوال نمبر 3:بعض احادیث میں ہے کہ مجھے پانچ چیزیں وہ عطا ہوئیں کہ مجھ سے پہلے کسی کو نہ ملیں، اس کا کیا مطلب ہے؟
جواب :بعض احادیث میں یہ ہے کہ میں چھ باتوں میں تمام انبیاء پر فضیلت دیا گیا، اور ایک حدیث میں ہے کہ میں انبیاء پر دوباتوں میں فضیلت دیا گیا، اور ایک حدیث میں ہے کہ جبریل نے مجھے دس چیزوں کی بشارت دی کہ مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہ ملیں۔
ان احادیث کریمہ میں نہ صرف عدد اور گنتی میں اختلاف ہے بلکہ جو چیزیں شمار کی گئی ہیں، وہ بھی مختلف ہیں، کسی میں کچھ خصائص کا ذکر ہے، کسی میں کچھ اور فضائل کا بیان ہے، ان احادیث میں معاذ اللہ کچھ تعارض نہیں اور نہ دو یا پانچ یا چھ یا دس میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلتیں منحصر ہیں،حاشا للہ ً ان کے فضائل لامحدود او ر خصائص نا محصور، ان کی حد بندی اور حصر و شمار ہمارے بس کی بات نہیں۔ در اصل ان احادیث میں یہ بیان ہے کہ بعض خصائص و فضائل یہ ہیں ۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض اور بھی ہیں تو کسی حدیث میں چند خصائص کا بیان اور کسی میں دوسرے خصائص کا ذکر، صرف اس لیے ہے کہ یہ خصائص جو وقتاً فوقتاً بیان کیے جا رہے ہیں، اس کو دل و دماغ میں محفوظ کر لیا جائے تاکہ آفتابِ نبوت کے فضائل و کمالات کی گوناگوں شعاعوں سے مسلمان کا سینہ منور و روشن رہے اور محبت رسول میں روز فزوں ترقی ہو کہ یہی اصلِ ایمان و مدار ایمان ہے۔
ہم ان خصائص میں سے چند کا اجمالاً بیان کرتے ہیں:
(۱) حضورصلی اللہ علیہ وسلم رحمۃ للعالمین میں:
قرآنِ کریم کا ارشادِ گرامی ہے:
ومآ ارسلنٰک الا رحمۃ للعٰلمینo
ترجمہ: اے محبوب! ہم نے تجھے نہ بھیجا مگر رحمت سارے جہانوں کے لیے۔
عالَمین جمع ہے عالَم کی اور عالَم کہتے ہیں ماسوی اللہ کو، یعنی اللہ عزوجل کے سوا ساری کائنات ، جس میں انبیاء و مرسلین اور ملائکہ مقربین، سب داخل ہیں تو لا جرم حضور پرنور سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم ان سب کے لیے رحمتِ الٰہی اور نعمت خداوندی ہوئے اور وہ سب حضور کی سرکارِ عالی مدار سے بہرہ مند و فیضیاب ، اسی لیے علماء کرام تصریحیں فرماتے ہیں کہ ازل سے ابد تک ارض و سما (زمین و آسمان) میں، اولیٰ و آخرت میں ، دنیا و دین میں، روح و جسم میں، ظاہری یا باطنی ، روزِ اول سے اب تک، اب سے قیامت تک ، قیامت سے آخرت ، آخرت سے ابد تک ، مومن یا کافر ، مطیع یا فاجر، ملک یا انسان ، جن یا حیوان بلکہ تمام ماسواللہ میں، چھوٹی یا بڑی، بہت یا تھوڑی جو نعمت و دولت ، کسی کو ملی یا اب ملتی ہے یا آئندہ ملے گی، سب حضور کی بارگاہِ جہاں پناہ سے بٹی اور بٹتی ہے اور ہمیشہ بٹتی رہے گی، سب پر حضور ہی کے طفیل رحمت ہوئی، حضور ہی بارگاہِ الٰہی کے وارث ہیں، بلا واسطہ خد ا سے حضور ہی مدد لیتے ہیں اور تمام عالَم مددِ الٰہی حضور ہی کے وسیلہ سے لیتا ہے۔ تو جس کو جو ملا یہیں سے ملا اور جس نے جو پایا یہیں سے پایا (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہٖ واصحابہ وابنہ سےّدنا الغوث الاعظم و بارک وسلم) ۔ ان کا چاہنے والا ان کا خالق رب العالمین ہے اور یہ رحمۃ للعالمین ، جو اطلاق و عمومیت وہاں ہے، یہاں بھی ہے۔
بخدا خدا کا یہی ہے در نہیں اور کوئی مفر مقر
جو وہاں سے ہو یہیں آکے ہو جو یہاں نہیں تو وہا نہیں
(۲)حضور صلی اللہ علیہ وسلم تمام مخلوقِ الٰہی کے نبی ہیں:
قرآنِ کریم ارشاد فرماتا ہے:
ومآ ارسلنٰک الا کآ فۃ للناس o
ترجمہ: ہم نے تمھیں نہ بھیجا مگر رسول سب لوگوں کے لیے۔
علماء کرام فرماتے ہیں کہ حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالتِ عامہ کا تمام جن وانس کو شامل ہونا اجماعی ہے اور اہل تحقیق کے نزدیک ملائکہ کو بھی شامل ہے اور شجرو حجر،حور و غلمان، ارض و سما ، دریا، پہاڑ غرض تمام کائنات کا ذرہ ذرہ نخلستان کا پتہ پتہ، سمندروں کا قطرہ قطرہ، حضور کے عام و تام دائرئہ رسالت واحاطۂ نبوت میں داخل ہے اور حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم تمام مخلوق ، انسان و جن بلکہ ملائکہ حیوانات ، جمادات سب کی طرف مبعوث ہوئے۔
خود قرآنِ عظیم میں دوسری جگہ آپ کی نبوت کو عالَمین کے لیے بتایا اور مذکورہ بالا آیت میں لفظ ’’خلق‘‘ بمعنی مخلوقاتِ الٰہی آیا اور اس کی تاکید میں لفظ کافۃ لا کر یہ بتا دیا کہ آپ کی نبوت جن وانسان اور انبیاء و مرسلین و ملائکہ مقربین سب کے لیے ہے، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رسولوں کے بھی رسول ہیں، امتیوں کو جو نسبت انبیاء ورسل سے ہے کہ وہ ان سب کے نبی اور یہ ان کے امتی ، وہی نسبت انبیاء ورسل کو اس سید الکل سے ہے بلکہ وہی نسبت اس سرکارِ عرش وقار سے ہر زرہ مخلوق اور ہر فرد ماسوی اللہ کی ہے اسی لیے اکابر علماء تصریح فرماتے ہیں کہ جس کا خدا خالق ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس کے رسول ہیں، خود قرآنِ کریم اس حقیقت پر شاہد ہے کہ روزِ اوّل ہی امتیوں پر فرض کیا گیا کہ رسولوں پر ایمان لائیں اور رسولوں سے عہد و پیمان لیا گیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے گرویدہ بن جائیں، حضور سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قسم اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے آج اگر موسیٰ دنیا میں ہوتے تو میری پیروی کے سوا ان کو گنجائش نہ ہوتی۔
اور یہی باعث ہے کہ جب زمانہ قرب قیامت میں حضرت سیدنا عیسیٰ علیہ السلام نزول فرمائیں گے با آنکہ بدستور منصبِ نبوت پر ہوں گے، حضور پر نور و کے امتی بن کر رہیں گے، حضور ہی کی شریعت پر عمل کریں گے اور حضور کے ایک امتی و نائب یعنی امام مہد ی کے پیچھے نماز پڑھیں گے۔
غرض حضور صلی اللہ علیہ وسلم سب انبیاء کے نبی ہیں اور تمام انبیاء و مرسلین اور ان کی امتیں سب حضور کے امتی ہیں، حضور کی نبوت ورسالت ، ابو البشر سید نا آدم علیہ الصلوٰۃ والسلام سے روزِ قیامت تک جمیع خلق اللہ کو عام و شامل ہے۔
حضور کے نیب الانبیاء ہونے ہی کا باعث ہے کہ شبِ اسراتمام انبیاء و مرسلین نے حضور کی اقتداء کی اور اس کا پورا ظہور کل بروزِ قیامت ہوگا جب حضور کے جھنڈے کے زیر سایہ تمام رُسل و انبیاء ہوں گے (صلی اللہ علیہ وعلیہم وبارک وسلم) ۔
(۳) حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا دین کامل ہے اور نعمتیں تمام:
رب عزوجل ارشاد فرماتا ہے:
الیوم اکملت لکم دینکم و اتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الا سلام دینا o
ترجمہ: میں تمہارے لیے تمہارا دین کامل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لیے اسلام کو دین پسند کیا۔
علمائے کرام فرماتے ہیں کہ دین کا اکمال یہ ہے کہ وہ اگلی شریعتوں کی طرح منسوخ نہ ہوگا اور قیامت تک باقی رہے گا ، اکمالِ دین سے مراد یہ ہے کہ دین کو ایک مستقل نظامِ زندگی اور مکمل دستورِ حیات بنا دیا گیا جس میں زندگی کے جملہ مسائل کا وجاب اصولاً یا تفصیلاً موجو دہے، اور ہدایت ورہنمائی حاصل کرنے کے لیے کسی حال میں اس سے باہر جانے کی ضرورت نہیں، اور نعمت تمام کرنے سے مراد اسی دین کی تکمیل ہے اور اسلام کو دین کی حیثیت سے پسند کر لینے کا مطلب یہ ہے کہ بندوں کی طرف سے قانونِ الٰہی کی تعمیل اور حدودِ شریعت پر قائم رہنے میں بندوں کی طرف سے کوئی کوتاہی نہ ہو اور وہ یقین رکھیں کہ انہیں درجہ قبولیت اسی شریعت کی اتباع سے حاصل ہوگا۔
مختصراًیوں کہنا چاہیے کہ جب انسان اپنے عقل و شعور میں حدِ بلوغ تک پہنچ گیا یا اس کے سامان پوری طرح مہیا ہو گئے ، تب نبوت ور سالت کو بھی حدِ کمال و تمام تک پہنچا کر ختم کر دیا گیا اور رشد و ہدایت کو رہتی دنیا تک اس طرح باقی رکھا کہ آخری پیغمبر کے ذریعے جو آخری پیغام کامل و مکمل بن کر آیا اسے تمام احکام و قوانین اور ہر دستورِ حیات کے لیے اساس و بنیاد بنا دیا۔
ظاہر ہے کہ اگر نبوت و رسالت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر پہنچ کر ختم نہ ہوتی اور اس کا سلسلہ کمالِ نبوت ہی کی شکل میں آگے بڑھتا رہتا ، تو صرف حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی اطاعت کا حکم نہ دیا جاتا بلکہ خطاب یہ ہوتا کہ جو نبی تمہارے زمانہ میں موجود ہو اس کی اتباعِ کرو جبکہ قرآنِ مجید صاف صاف لفظوں میں بار بار ، جگہ جگہ یہ ارشاد فرما رہا ہے کہ اب انسانی رشدو ہدایت کا صرف ایک ہی طریقہ ہے کہ اللہ کی اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کی جائے۔
بفرضِ غلط اگر ختمِ نبوت کی تصریح قرآنِ کریم یا حادیثِ صحیحہ میں نہ بھی ہوتی جب بھی یہی آیۃ کریمہ (الیوم اکملت لکم) اس عقیدہ کی بنیاد کو کافی تھی کہ جب کوئی درجہ مزید تعلیم اور اصلاح کا باقی ہی نہ رہا تو اب کسی نئے نبی کی ضرورت ہی کیا رہی کہ دین کامل ہے اور قرآن اگلی شریعتوں کا ناسخ ، اب نہ کسی دین کی ضرورت ہے نہ کسی کتابِ قانون کی حاجت، والحمد للہ رب العالمین۔
(۴) حضور صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبےین ہیں:
قرآن شریف میں ارشاد فرمایا گیا :
ولٰکن رسول اللہ وخاتم النبین o
ترجمہ: محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں اور سب نیبوں میں پچھلے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا خاتم البنےین اور آخری نبی ہونا اور آپ پر نبوت کا ختم ہوجانا،آپ کے بعد کسی نئے نبی کا نہ قطعی ایقانی اجماعی عقیدہ ہے، نصِ قرآنی بھی یہی بتاتی ہے اور بکثرت احادیثِ صحیحہ، جو حدِ تواتر تک پہنچتی ہیں، ان سب سے ثابت ہے کہ حضور سب سے پچھلے نبی ہیں اور آپ کے بعد کوئی نیا نبی ہونے والا نہیں اور تاریخ کے اوراق اس بات کے شاہد ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانۂ اقدس کے بعد جب بھی دنیا کے کسی گوشہ سے کسی مجنون لایعقل کے منہ سے دعویٔ نبوت ہوا، امتِ مسلمہ نے اس کے دعویٰ کو ٹھکرا کر اسی کے منہ پر ماردیا۔
صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانۂ خلافت میں مدعیانِ نبوت کے خلاف تمام صحابۂ کرام کا جہاد بتا رہا ہے کہ انہوں نے خاتم النبےین کے یہی معنی سمجھے اور اسی پر کاربند رہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں، آپ کے بعد کسی نئے نبی کی گنجائش نہیں اور مسیلمہ کذاب کا جو حشر ہوا وہ سب پر روشن ہے۔
سوال نمبر 4:خاتم النبےین کے معنی’’نبیوں کی مُہر‘‘ یا افضل النبےین لینے والے کے بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے؟
جواب :معنی چار قسم پر ہیں، لغوی، شرعی، عرفی عام وخاص۔
یہاںشرعی معنی کے لحاظ سے تو خاتم النبےین کے معنی آخر الا نبیاء ہی متعین ہیں، کسی اور معنی کا ادنیٰ سے ادنیٰ احتمال بھی نہیں اور عرفِ عام بھی اسی معنی شرعی پر ہے اور معنی لغوی کے اعتبار سے بھی خاتم بمعنی مُہر یا بمعنی افضل مراد لینا ، قطعاً باطل ہے۔ عربی کی تمام معتبر اور مشہور لغات سے یہی بات ثابت ہے کہ خاتم (بفتحِ تائ) ہو یا خاتم (بکسرِتائ) آخر ’’ شی ‘‘ اس کے حقیقی معنی ہیں اور جب کسی شخصیت کے لیے بولا جائے تو آخر القوم مراد ہوتے ہیں تو خاتم النبےین کے معنی ہوئے آخر الانبیاء اور خاتم الانبیاء تب ہی صحیح ہوگا کہ آنے والا آخری نبی ہو، اور لغت و شرع و عرف عام سے ہٹ کر اپنی اپنی اصلاح قائم کرنا اور کسی لفظ کے ایک نئے معنی گھڑنا یا خاص کر لینا نہ صر ف نرِی گمراہی بلکہ کھلا زندقہ والحاد ہے کہ اگر ایسے دعوے قابلِ سماعت ہوں تو دین و دنیا کے تمام کارخانے درہم برہم ہو جائیں۔
اوراگر خاتم بمعنیٰ مہرہی لیا جائے اور خاتم النبےین کے معنی ’’نبیوں کی ُمہر‘‘کے کئے جائیں تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ جس طرح کسی چیز کے ختم پر مہر اس لیے لگائی جاتی ہے کہ اس تحریر یا شئے کا اختتام ہو گیا اور اب اس میں کسی بھی اضافے کی گنجائش باقی نہیں رہی تو نبیوں کی مہر‘‘ کا مطلب بھی یہی ہو ا کہ اب فہرست انبیاء و مرسلین میں کسی اصافے کی گنجائش نہیں۔
یہاں یہ بات بھی قابلِ توجہ ہے اور ہمیشہ زہین نشین رکھنی چاہیے کہ قرآنِ کریم کا حکیمانہ طریقہ استد لال یہ ہے کہ وہ ایک ہی بات کو مختلف اسلوب سے ادا فرمادیتا ہے اور ایک آیت دوسری آیت کی خود ہی تفسیر بن جاتی ہے اور حقیقت حال روشن ہو کر سامنے آجاتی ہے چنانچہ یہاں بھی یہی صورتِ حال موجود ہے، قرآنِ حکیم کا وہ اعلان بھی آپ سن چکے کہ الیوم اکملت لکم دینکم o
اس آیت میں نہ خاتَم ہے نہ خاتِم کہ خواہ مخواہ کے احتمالات پیدا کئے جائیں، صاف صاف بتادیا گیا کہ شریعتِ خداوندی رفتہ رفتہ اب اس حد تک پہنچ گئی ہے جس کے بعد اب ترقی کا خاتمہ ہے اس لیے کہ وہ کامل و مکمل ہر کر سامنے گئی اور جب کسی نئے پیغام کی ضرورت باقی نہ رہی تو نئے پیغمبر کی ضرورت خود بخود باقی نہیںرہتی اور رہتی دنیا تک یہی پیغام و پیغمبر کا فی ہے۔
پھر جبکہ خود صاحبِ قرآن صلی اللہ علیہ وسلم نے بکثرت احادیث میں یہ معنی بیان فرما دئیے کہ میں آخری نبی ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں تو کسی اور معنی کے تصور کی بھی گنجائش باقی نہیں رہتی۔
الغرض حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی نئی نبوت کا دعویٰ یا اقرار یا اس کی تصدیق کرنے والا زندیق و مرتد ہے اور ختمِ نبوت بمعنیٔ مشہور کا منکر نہ صرف منکر بلکہ اس میں شک کرنے والا، نہ صرف شک کرنے والا بلکہ اس میں نئے معنی کا ادنیٰ یا ضعیف سے ضعیف احتمال ماننے والا ملعون ، دائرئہ اسلام سے خارج اور جہنمی ہے۔
سوال نمبر 5:ختمِ نبوت کے بار ے میں چند احادیث بھی بیان فرمائیں؟
جواب :نہ صرف دو چار، دس بیس بلکہ احادیث اس باب میں متواتر ہیں اور ان کا ماحصل یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
۱۔ میں محمد ہوں، میں احمد ہوں، میں ماحی ہوں کہ اللہ تعالیٰ میرے سبب سے کفر مٹاتا ہے، میں حاشر ہوں میرے قدموں پر لوگوں کا حشر ہوگا (معنیٰ یہ کہ ان کا حشر میرے بعد ہوگا) میں عاقب ہوں اور عاقب وہ جس کے بعد کوئی نبی نہیں ۔ (بخاری، مسلم ،ترمذی شریف)
۲۔ میں سب انبیاء میں آخری نبی ہوں۔ (مسلم وغیرہ)
۳۔ بالیقین میں اللہ کے حضور لوحِ محفوظ میں خاتم البنےین لکھا تھا اور ہنوز آدم اپنی مٹی میں تھے۔ (احمد و حاکم)
۴۔ بے شک رسالت و نبوت ختم ہوگئی، اب میرے بعد نہ کوئی رسول نہ کوئی نبی (احمد، ترمذی)
۵۔ اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر ہوتے (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) اور دنیا جانتی ہے کہ عمر فاروق اعظم نبی نہ تھے، تو ثابت ہو گیا کہ حضور کے بعد کوئی نبی نہیں ہو سکتا۔
۶۔ میری امت میں (یعنی امتِ دعوت میں میں کہ مومن و کافر سب کو شامل ہے) قریب تیس کے دجال نکلیں گے، ان میں ہر ایک کا گمان یہ ہوگا کہ وہ نبی ہے حالانکہ میں خاتم النبےین ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں (مسلم)
۷۔ میری اور سب انبیاء کی مثال ایک محل کی سی ہے جسے خوب بنایا گیا مگر ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی گئی، دیکھنے والے آتے اور اس کی خوبی تعمیر سے تعجب کرتے مگر وہی ایک اینٹ کی جگہ نگاہوں میں کھٹکتی ، میں نے تشریف لا کر اس خالی جگہ کو بھر دیا ہے اب وہ عمارت میری وجہ سے مکمل ہو گئی ، مجھ سے رسولوں کی انتہا ہوئی ہیں قصرِ نبوت کی وہ پچھلی اینٹ ہوں اور خاتم الانبیاء۔ (بخاری ، مسلم)
۸۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ساری زمین مسجد اور پاک کرنے والی بنا دی گئی، ارشاد فرماتے ہیں (ﷺ) جعلت لی الارض مسجدا وطھورا (مسلم)یعنی میرے لیے ساری زمین مسجد گاہ او ر طاہر و مطہر (پاک کرنے والی) قرار دی گئی ۔
یہودی اپنے کنیسہ اور عیسائی اپنے کلیسا کے بغیر نماز نہ پڑھا کرتے تھے، مجوسی بھی آتشکدہ کے بغیر اور ہندوں مندروں کے بغیر سرگرمِ عبادت نہ ہوا کرتے تھے مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت مطہرہ کے مطابق، مسلمانوں کی نماز نہ محرابِ عبادت کی محتاج ہے ، نہ کسی مکان و مسجد کی موجودگی پر ان کی سجدہ ریزی موقوف ، ان کا گرمایا ہوا دل اور روشن آنکھیں آگ کی حرارت و رشنی سے بے نیاز ہیں اس لیے روئے زمین کا ہر ایک بقعہ اور ہر ایک قطعہ ان کی سجدہ ریزی کے لیے موزوں ہے اور اللہ تعالیٰ نے روئے زمین کو حضور کی مسجد بنا دیا ہے ۔
یونہی طہارت نماز کے لیے شرط ہے لیکن کیا نماز ، پانی کی غیر موجودگی کی صورت میں ان مسلمانوں پر معاف ہو جاتی جو گھاس کے پتے پتے اور زمین کے ذرہ ذرہ سے معرفتِ الٰہی کے خزانے سمیٹتے ہیں اور ڈالی ڈالی ، پتہ پتہ ان کی نگاہوں میں معرفتِ الٰہی کا سرچشمہ ہے۔
انسان مٹی ہی سے بنا ہے ،مٹی ہی اس کی اصل ہے اور مٹی ہی اس کو بن جانا ہے، مٹی ہی مخلوقات کا گہوارہ ہے اور مٹی ہی سے زمین کی کائنات اپنی خوراک حاصل کرتی ہے، اس لیے مٹی ہی کو طہور، پانی کے قائم مقام ، طاہر و مطہر بنا دیا گیا۔
۹۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو جوامع الکلم کا عطیہ بخشا گیا۔
عالِم اعلم سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں اعطیت بجو امع الکم’’مجھے جامع کلام دیا گیا(لفظ تھوڑے ہوں اور معنی زیادہ) (بخاری و مسلم)
جب کوئی شخص ان مبارک لفظوں پر غور کرے گا جو حضور پرنور کے دل وزبان سے گوش عالمیاں (مخلوق کے کانوں) تک پہنچے اسے یقین ہو جائے گا کہ بے شک یہ کلام نبوت ہے، مختصر سادہ، صاف، صداقت سے معمور، معانی کا خزینہ، ہدایت کا گنجینہ۔
ایک اور حدیث شریف میں ہے اختصر لی اختصارا یعنی میرے لیے کمال اختصار کیا گیا۔
(۱) مجھے اختصارِ کلام بخشا کہ تھوڑے لفظ ہوں او ر معنی زیادہ۔
(۲) میرے لیے زمانہ کو مختصر کیا کہ میری امت کو قبروں میں کم وقت کے لیے رہنا پڑے گا۔
(۳) میرے لیے امت کی عمریں کم کیں کہ دنیا کے مکروہات سے جلد خلاصی پائیں، گناہ کم ہوں اور نعمتِ باقی تک جلدپہنچیں۔
(۴) میرے غلاموں کے لیے پل صراط کی راہ (کہ پندرہ ہزار بر س کی ہے) اتنی مختصر کر دی گئی کہ چشم زدن میں گزر جائیں گے جیسے بجلی کَوند گئی۔ (بخاری ومسلم)
(۵) قیامت کا دن پچاس ہزار برس کا ہے، میرے غلاموں کے لیے اس سے کم دیر میں گزر جائے گا جتنی دیر میں دو رکعت نماز پڑھا کرتے ہیں۔ (احمد و بہیقی)
(۶) میری امت کے تھوڑے عمل پر اجز زیادہ دیا۔
( ۷) وہ علوم و معارف جو ہزار سال کی محنت دریاضت میں حاصل نہ ہو سکیں ، میری چند روزہ خدمت گاری میں میرے اصحاب پر منکشف فرمائے۔
(۸) زمین سے عرش تک لاکھوں برس کی راہ میرے لیے ایسی مختصر کر دی کہ آنا اور جانا اور تمام مقامات کو تفصیلاً ملاحظہ فرمانا سب تین ساعت میں ہو لیا۔
(۹) مجھ پر وہ کتاب اتاری جس کے معدود ورقوں میں تمام گذشتہ اور آئندہ چیزوں کا روشن، مفصل بیان ہے، جس کی ہر آیت کے نیچے ساٹھ ساٹھ ہزار علم، جس کی ایک آیت کی تفسیر سے ستر ستر اونٹ بھر جائیں۔
(۱۰) مشرق تا مغرب اتنی وسیع دنیا کو میرے سامنے ایسا مختصر کر دیا کہ میں اسے اور جو کچھ اس میں قیامت تک ہونے والا ہے، سب کو ایسا دیکھ رہا ہوں جیسا اپنی اس ہتھیلی کو دیکھ رہا ہوں۔ (طبرانی وغیرہ)
(۱۱) اگلی امتوں پر جو اعمال شاقہ (مشقت طلب) طویلہ تھے ، میری امت سے اٹھا لیے پچاس نمازوں کی پانچ رہیں اور حسابِ کرم وثواب میں پوری پچاس ، زکوٰۃ میں چہارم مال کی جگہ چالیسواں حصہ فرض رہا اور اجر و ثواب میں وہی چہارم کا چہارم، وعلیٰ ہذالقیاس۔
یہ حضور کے اختصارِ کلام سے ہے کہ ایک لفظ کے اتنے کثیر معنی (افادیت رضویہ)
(۱۲) حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو منصبِ شفاعت دیا گیا۔
ارشادِ گرامی ہے:
واعطیت الشفاعۃ o
ترجمہ: یعنی مجھے شفاعت کا حق دیا گیا۔
شفاعت کی حدیثیں بھی متواتر ہیں اور ہر مسلمان صحیح الایمان کو یہ بات معلوم ہے کہ یہ قبائے کرامت، اس مبارک قامت، شایانِ امامت، سزااور سیادت کے سوا کسی قدِ بالا پر راست نہ آئی، نہ کسی نے بارگاہِ الٰہی میں ان کے سوا یہ وجاہت عظمٰی و محبوبیتِ کبریٰ واذنِ سفارش واختیار گذارش کی دولت پائی۔
روزِ قیامت کہ تمام اولین و آخرین ایک مدیان وسیعے و ہموار میں جمع ہوں گے اور گرمی آفتاب سے طاقت طاق ہوگی خود ہی تجویز کریں گے کہ آدم علیہ السلام کے پاس چلنا چاہیے، ان کے پاس جائیں گے ، شفاعت کے لیے عرض کریں گے ، آپ فرمائیں گے نفسی نفسی اذھبو آ الیٰ غیری oمجھے اپنی جان کی فکر ہے تم نوح کے پاس جاؤ اور یونہی باری باری تمام لوگ حضرتِ نوح علیہ السلام ، پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام، پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام ، پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پاس جائیں گے اور سب جگہ سے مایوس ہو کر تھکے ہارے، مصیبت، کے مارے، ہاتھ پاؤں چھوڑے ، چاروں طرف سے امیدیں توڑے، مولائے دو جہاں حضور پر نور محمد رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہِ عرش جاہ بیکس پناہ میں حاضر ہوں گے اور حضور پر نور صلی اللہ علیہ وسلم بارگاہِ الٰہی میں ان کی سفارش فرما کر ان کی بگڑی بنا ئیں گے۔
تمام اہل محشر کا حضور سے پہلے دیگر انبیائے کرام کے پاس حاضر ہونا اور دفعۃً حضور کی خدمت میں حاضری نہ دینا اور میدانِ قیامت میں (کہ صحابہ و تابعین ، ائمۂ محدثین اور اولیائے کا ملین بلکہ حضراتِ انبیاء علیہم الصلوٰۃ والثناء سبھی موجود ہوں گے) اس جانی پہچانی بات کا ان کے دلوں میں سے بھلا دیا جانا، صاف بتا رہا ہے کہ یہ سارے انتظامات اس لیے کیے گئے کہ اولین و آخرین، موافقین و مخالفین پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و وجاہت کا راز کھل جائے اور کسی شخص کو یہ شبہہ باقی نہ رہے کہ اگر ہم سرورِ عالم کے سوا کسی دوسرے کے پاس جاتے تو ممکن تھا کہ وہ بھی شفاعت کر ہی دیتے، اب جبکہ ہر جگہ سے صاف جواب مل جائے گا تو سب کو بالیقین معلوم ہو جائے گا کہ یہ منصبِ رفیع حضور ہی کی خصوصیتِ خاصہ کا مظہر ہے۔
٭ لطیفہ ٭
ہم کہتے ہیں شفاعت مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم حق ہے اور ہم قطعاً حق پر ہیں ان کے کرم سے ہمارے لیے ہوگی، وہابی کہتے ہیں شفاعت محال ہے اوروہ ٹھیک کہتے ہیں ، امید ہے کہ ان کے لیے نہ ہوگی۔
گر بر تو حرامست ، حرامت بادہ
خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں روزِ قیامت میری شفاعت حق ہے تو جو اس پر یقین نہ لائے وہ اس کے لائق نہیں۔ الغرض حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے خصائص کی پانچ دس کیا سو اور دو سو پر بھی انتہاء نہیں، امامِ سیوطی نے ڈھائی سو کے قریب خصائص شمار کئے ، ان سے زیادہ علم والے زیادہ جانتے تھے اور علمائے ظاہر سے علمائے باطن کو زیادہ معلوم ہے پھر صحابہ کرام کا علم ہے اور ان کے علوم سے ہزاروں منزلیں آگے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا علم ہے جس قدر حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے فضائل و خصائص جانتے ہیں، دوسرا کیا جانے گا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ علم والا ان کا مالک و مولیٰ ہے جس نے ہزاروں فضائل عالیہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دئیے اور بے حدوبے شمار ابد الآباد کے لیے رکھے، اسی لیے حدیث میں ہے’’ اے ابو بکر! مجھے ٹھیک ٹھیک جیسا ہوں، میرے رب کے سوا کسی نے نہ پہچانا‘‘ (مطالع المسرات)
تُرا چناں کہ توئی دیدئہ کجا بیند
بقدرِ بینش خود، ہر کسے کندادراک
صلی اللہ علیک وعلیٰ اٰلک واصحابک اجمعین o