سوال نمبر 1: امامت کے کیا معنی ہیں؟
جواب :امامت سرداری کو کہتے ہیں اور امام قوم کے سردار اور پیشوا کو کہتے ہیں۔ امامت نماز کے معنی ہیں ’’ مقتدی کی نماز کا امام کی نماز سے چند شرطوں کے ساتھ وابستہ ہونا‘‘ ۔ حدیث میں آیا ہے کہ امام ضامن ہوتا ہے ، یعنی نماز میں امام کے سر بڑی ذمہ داری ہے مقتدیوں کی نمازوں کا صحیح و فاسد ہونا سب اسی کے سر ہے۔ ذرا کسی کو مولوی صورت دیکھ کر امامت کے لیے بڑھا دینا نادانی اور احکام شرع سے لا پرواہی ہے، شریعت مطہرہ نے امامت کے لیے کچھ شرطیں بھی رکھی ہیں جن کا ہر امام میںپایا جانا ضروری ہے۔
سوال نمبر 2: شرائط امامت کیا ہیں؟
جواب :مرداگر معذور نہ ہو تو اس کے امام کے لیے چھ شرطیں ہیں:
(۱) امام مسلمان ہو (۲)بالغ ہو یعنی اگر کوئی اور علامت بلوغ اس میں نہ پائی جائے تو پندرہ برس کی کامل عمر رکھتا ہو۔ (۳)عاقل ہو (۴) مرد ہو (۵) اتنی قرات جانتا ہو کہ جس سے نماز صحیح ہو جائے۔ (۶) عذر سے محفوظ ہو یعنی اسے کوئی ایسا مرض نہ ہو جس سے معذور کا حکم دیا جاتا ہے۔
سوال نمبر 3: کن لوگوں کے پیچھے نماز مکروئہ تنزیہی ہے؟
جواب :غلام، دہقانی، نابینا، ولد الزنا، خوبصورت، امرد (وہ نو عمر جس کے داڑھی مونچھ نہ ہو) کوڑھی، برص والا جس سے لوگ کراہت و نفرت کرتے ہیں اور سیفہ یعنی بیوقوف جو کہ خرید و فروخت میں دھو کے کھاتا ہو ۔ اس قسم کے لوگوں کے پیچھے نماز مکروئہ تنزہی ہے کہ پڑھنی خلافِ اولیٰ ہے اور پڑھ لیں تو حرج نہیں، بلکہ اگر حاضرین میں یہی لوگ سب سے زائد مسائل نماز و طہارت کا علم رکھتے ہوں اور اس جماعت میں اور کوئی ان سے بہتر نہ ہو تو یہی مستحق امامت ہیں اور کوئی کراہت نہیں اور نابینا کی امامت میں تو بہت خفیف کراہت ہے۔
سوال نمبر 3: کن لوگوں کے پیچھے نماز مکروئہ تحریمی ہے؟
جواب :وہ بدمذہب جن کی بد مذہبی حد کفر تک نہ پہنچی ہو اور فاسق معلن جو کبیرہ گناہ بالا علان کرتے ہیں جیسے شرابی ، جواری، زنا کار، سود خور، چغل خور، داڑھی منڈانے یا خشخاشی رکھنے والا یا کتروا کر حد شرع سے کم کرنے والا یا ناچ رنگ دیکھنے والا یا مولا علی کو شیخین سے افضل بتانے والا یا کسی صحابی مثلا امیر معاویہ و ابوموسیٰ اشعری کو برا کہنے والا، ان میں سے کسی کو امام بنانا گناہ اور ان کے پیچھے نماز مکروئہ تحریمی واجب الاعادہ کہ جتنی پڑھی ہوں سب کا پھیرنا واجب ہے مگر جہاں جمعہ وعیدین ایک ہی جگہ ہوتے ہیں اور ان کا امام بدعتی یا فاسق معلن ہے اور دوسرا اما م نہ مل سکتا ہو وہاں ان کے پیچھے جمعہ و عیدین پڑھ لی جائیں۔
سوال نمبر 4: کن لوگوں کے پیچھے نماز بالکل نہیںہوتی ؟
جواب :جوقرات غلط پڑھتا ہو جس سے معنی فاسد ہوں یا وضو یا غسل صحیح نہ کرتا ہو یا ضرورت دین سے کسی چیز کا منکر ہو یعنی وہ بد مذہب جس کی بد مذہبی کفر کی حد تک پہنچ چکی ہو اور وہ جو شفاعت یا دیدار الٰہی یا عذاب قبر یا کراماً کا تبین کا انکار کرتا ہے ان کے پیچھے نماز باطل محض ہے کہ نہ ان کی نماز ، نماز ہے نہ ان کے پیچھے نماز ، نماز ہے حتیٰ کہ جمعہ و عیدین میں بھی ان کی اقتدار درست نہیں۔
سوال نمبر 5: اقتداء کی شرطیں کتنی ہیں؟
جواب :اقتداء یعنی کسی امام کی نماز کے ساتھ اپنی نماز وابستہ کر دینا، اس کی تیرہ شرطیں ہیںوہ یہ ہیں:
(۱)متقدی کو اقتداء کی نیت (۲)نیت اقتداء کا تحریمہ کے ساتھ ہونا یا تحریمہ پر مقدم ہونا، بشرطیکہ اس صورت میں نیت و تحریمہ کے درمیان کوئی فعل اجنبی جو منافی نماز ہے نہ پایا جائے۔ (۳)امام و مقتدی دونوں کا ایک مکان میں ہونا۔ (۴)دونوں کی نماز ایک ہو یا امام کی نماز مقتدی کی نماز کی نماز کو متضمن ہو۔ (۵)امام کی نماز کا مقتدی کے مذہب میں صحیح ہونا۔ (۶) امام اور مقتدی دونوں کا اسے صحیح سمجھنا (۷)عورت کا نماز میں مرد کے برابر نہ ہونا (اس کی صورتیں مخصوص ہیں)۔ (۸)مقتدی کا امام سے مقدم نہ ہونا (۹) امام کے انتقالات کا علم ہونا یعنی امام کے ایک رکن سے دوسرے رکن میں جانے کو جاننا خواہ دیکھ کر ایا کسی اور طرح۔ (۱۰) مقتدی کو امام کا میقم یا مسافر معلوم ہونا اگرچہ بعد نماز (۱۱) ارکانِ نماز کی ادا میں شریک ہونا (۱۲)ارکان کی بجا آوری میں مقتدی کا امام کی مانند یا کم ہونا (۱۳) اور شرائط میں مقتدی کا امام سے زائد نہ ہونا۔
سوال نمبر 6: تراویح میں نابالغ کو امام بنانا درست ہے یا نہیں؟
جواب :نابالغ لڑکے کی اقتداء مرد بالغ کسی نماز میں نہیں کر سکتا یہاں تک کہ نماز جنازہ و تراویح و نوافل میں، یہی صحیح ہے۔ ہاں نابالغ دوسرے نابالغوںکی امامت کر سکتا ہے جبکہ سمجھدار ہو۔
سوال نمبر 7: امامت کا زیادہ حقدار کون ہے؟
جواب :سب سے زیادہ مستحق امامت وہ شخص ہے جو نماز و طہارت کے احکام کو سب سے زیادہ جانتا ہو بشرطیکہ اتنا قرآن شریف یاد ہو کہ بطور مسنون پڑھے اور صحیح پڑھتا ہو اور مذہب کی کچھ خرابی نہ رکھتا ہو اور فواحش یعنی بے حیائیوں اور ایسے کاموں سے بچتا ہو، جو مروت کے خلاف ہیں۔
اس کے بعد وہ شخص جو قرات کا زیادہ علم رکھتا ہو اور اس کے موافق ادا کرتا ہو اس کے بعد وہ جو زیادہ پرہیز گار ہو یعنی حرام تو حرام شبہات سے بھی بچتا ہو۔ اس کے بعد زیادہ عمر والا، اس کے بعد وہ جس کے اخلاق زیادہ اچھے ہوں۔ اس کے بعد تہجد گزار اور چند شخص برابر کے ہوں تو ان میں جو شرعی ترجیح رکھتا ہو وہ زیادہ حقدار ہے یا پھر ان میں سے جماعت جس کو منتخب کر لے۔
ہاں اگر کسی جگہ امام معین ہو تو وہی امامت کا حقدار ہے اگرچہ حاضرین میں کوئی اس سے زیادہ علم اور زیادہ تجوید والا ہو یعنی جبکہ امام معین میں شرائط امامت پائی جاتی ہوں ورنہ اورنہ وہ امامت کاا ہل ہی نہیں، بہتر ہونا درکنار۔
سوال نمبر 8: جس سے لوگ ناراض ہوں ان کی امامت کا حکم کیا ہے؟
جواب :جس شخص کی امامت سے لوگ کسی شرعی وجہ سے ناراض ہوں تو اس کا امام بننا مکروئہ تحریمی ہے اور اگر ناراضی کسی شرعی وجہ سے نہ ہو تو کراہت نہیں بلکہ اگر وہی احق ہو تو اسی کو امام ہونا چاہیے۔
سوال نمبر 9: معذور معذور کا اور امّی امّی کا امام ہو سکتا ہے یا نہیں؟
جواب :معذور (یعنی ہر وہ شخص جس کو کوئی ایسی بیماری ہے کہ ایک وقت پورا ایسا گزر گیا کہ وضو کے ساتھ نماز فرض ادا نہ کر سکا) اپنے مثل یا اپنے سے زائد عذر والے کی امامت کر سکتا ہے۔ کم عذ ر والے کی امامت نہیں کر سکتا۔ اور اگر امام و مقتدی دونوں کی دو قسم کے عذر ہوں۔ مثلاً ایک کو ریاح کا مرض ہے دوسرے کو نکسیر کا تو ایک ، دوسرے کی امامت نہیں کر سکتا، اور امّی(یعنی جس کو کوئی آیت یاد نہیں یا آیتیں یاد ہیں مگر حروف صحیح ادا نہیں کر سکتا۔ جس کی وجہ سے معنی فاسد ہو جاتے ہیں)۔ امّی کا امام ہو سکتا ہے، قاری کا نہیں، اور یہاں قاری سے مراد وہ شخص ہے جو کہ بقدر فرض قرآن صحیح پڑھ سکتا ہو بلکہ اگر امّی نے امّی اور قاری کی امامت کی تو کسی کی نماز نہ ہوئی، اگرچہ قاری درمیان نماز میں شریک ہوا ہو۔
سوال نمبر 10: مقتدی کسے کہتے ہیں اور اس کی کتنی قسمیں ہیں؟
جواب :امام کی اقتداء کرنے والے کو مقتدی کہتے ہیں۔ اور اس کی چار قسمیں ہیں:
(۱) مدرک یعنی وہ جس نے اول رکعت سے تشہد تک امام کے ساتھ نماز پڑھی (۲)لاحق یعنی وہ کہ امام کے ساتھ پہلی رکعت میں شریک ہو ا مگر اقتداء کے بعد اس کی کل رکعتیں یا بعض فوت ہو گئیں، خواہ عذر سے خواہ بلا عذر (۳) مسبوق یعنی وہ کہ امام کی بعض رکعتیں پڑھنے کے بعد شامل ہوا اور آخر تک شامل رہا۔ (۴)لاحق مسبوق یعنی وہ کہ جسے کچھ رکعتیں شروع کی امام کے ساتھ نہ ملیں پھر شامل ہونے کے بعد لاحق ہو گیا۔
سوال نمبر 11: لاحق کا کیا حکم ہے؟
جواب :لاحق مدرک کے حکم میں ہے کہ جب اپنی فوت شدہ نماز پڑھے گا تو اس میں نہ قرات کریگا نہ سہو سے سجدہ سہو کرے گا اور اپنی فوت شدہ کو یعنی جہاں سے باقی ہے وہاں سے پہلے پڑھے گا۔ یہ نہ ہوگا کہ امام کے ساتھ پڑھے۔ جب امام فارغ ہو جائے تو اپنی پڑھے اور اگر ایسا نہ کیا بلکہ امام کے ساتھ ہو گیا پھر امام کے سلام پھیرنے کے بعد فوت شدہ پڑھی تو نماز ہو گئی مگر گنہگار ہوا۔
سوال نمبر 12: مسبوق کا کیا حکم ہے؟
جواب :مسبوق پہلے امام کے ساتھ ہو لے پھر امام کے سلام پھیرنے کے بعد اپنی فوت شدہ نماز پڑھے اور اپنی فوت شدہ کی ادا میں یہ منفرد کے حکم میں ہے کہ جو رکعت جاتی رہی تھی اس میں قرات کرے اور کسی وجہ سے پہلے ثناء نہ پڑھی تھی تو اب پڑھے اور قرات سے پہلے اعوذ باللہ اور بسم اللہ پڑھے اور فوت شدہ میں سہوہو تو سہوکرے اور تشہد کے حق میں یہ رکعت ، اول رکعت قرار نہ دی جائے گی بلکہ دوسری ، تیسری ، چوتھی جو شمار میں آئے ، مثلاً چار رکعت والی نماز میں اسے ایک ملی تو حق قرات میں یہ جواب پڑھتا ہے پہلی ہے اور حق تشہد میںد وسری ، لہٰذا ایک رکعت فاتحہ اور سورت کے ساتھ پڑھ کر قعدہ کرے اور اس کے بعد والی میں بھی فاتحہ کے ساتھ سورت ملائے اور اس میں نہ بیٹھے پھر اس کے بعد والی میں فاتحہ پڑھ کر رکوع کر دے اور تشہد وغیرہ پڑھ کر نماز ختم کر دے اور مسبوق کو چاہیے کہ امام کے سلام پھرتے ہی فوراً کھڑا نہ ہو جائے بلکہ اتنی دیر صبر کرے کہ معلوم ہو جائے کہ امام کو سجدہ سہو تو نہیں کرنا ہے۔
سوال نمبر 13: مسبوق اگر امام کے ساتھ سلام پھیر دے تو کیا حکم ہے؟
جواب :مسبوق نے یہ گمان کرکے کہ مجھے بھی امام کے ساتھ سلام پھیرنا چاہیے قصداً سلام پھیر دیا تو نماز فاسد ہو گئی اور اگر بھول کر سلام پھیرا اگر امام کے بعد پھیرا تو سجدئہ سہو لازم ہے، اپنی نماز پوری کرکے سجدئہ سہو کرے اور اگر بالکل ساتھ ساتھ پھیرا تو پھر سجدئہ سہو نہیں کھڑا ہو جائے اور اپنی نماز پوری کر لے۔
سوال نمبر 14: مسبوق کھڑا ہو گیا، اب امام نے سجدئہ سہو کیا تو مسبوق کیا کرے؟
جواب :اگر امام نے سلام پھیر دیا اور مسبوق اپنی نماز پوری کرنے کھڑا ہوا ، اب امام نے سجدئہ سہو کیا تو جب تک مسبوق نے اس رکعت کا سجدئہ نہ کیا ہو تو لوٹ آئے اور امام کے ساتھ سجدئہ سہو کرے اور پھر اپنی پڑھے۔ اور پہلے جو افعال کر چکا تھا اس کا شمار نہ ہوگا اور اگر نہ لوٹا اور اپنی پڑھ لی تو آخر میں سجدئہ سہو کرے اور اگر اس رکعت کا سجدئہ کر چکا ہے تو نہ لوٹے، لوٹے گا تو نماز فاسد ہو جائے گی۔