سوال نمبر 1: مسجد نبوی اور روضۂ انور کی زیارت کے آداب کیا ہیں ؟
جواب :سر زمین عرب کا یہ وہ مبارک قطعہ ہے جس کی بابت کہا گیا کہ
ادب گاہیست زیر آسماں از عرش نازک تر
نفس کر دہ می آید جنید وبایزید اینجا
اس لیے ’’با ادب با نصیب‘‘ کا سر اپا بن کر حاضریٔ درِ والا کو مقصود بناؤ۔
۱۔ حاضری میں خاص زیارت اقدس کی نیت کرو اور راستہ بھر درود و ذکر شریف میں ڈوب جاؤ۔
۲۔ جب حرم مدینہ نظر آئے، روتے سر جھکاتے آنکھیں نیچی کئے ہوئے اور ہو سکے تو پیادہ ننگے پاؤں چلو اور جب شہر اقدس تک پہنچو تو جلال و جمال محبوب کے تصور میں غرق ہو جاؤ۔
۳۔ جب قبہّ انور پر نظر پڑے، درود سلام کی کثرت کرو۔
۴۔ حاضریٔ مسجد سے پہلے تمام ضروریات سے جن کا لگاؤ دل بٹنے کا باعث ہو نہایت جلد فارغ ہو کر وضو اور مسواک کرو اور غسل بہتر، سفیدو پاکیزہ کپڑے پہنو اور نئے بہتر سرمہ اور خوشبو لگاؤ اور مشک افضل ۔
۵۔ اب فوراً آستانۂ اقدس کی طرف نہایت خشو ع و خضوع سے متوجہ ہو اوردررِ مسجد پر حاضر ہو کر صلوٰۃ و سلام عرض کرکے تھوڑا ٹھہرو جیسے سرکار سے اجازت مانگتے ہو۔
۶۔ بسم اللہ کہہ کر سیدھا پاؤں پہلے رکھ کر ہمہ تن ادب ہو کر داخل ہو، آنکھوں ، کانوں، زبان ہاتھ ، پاؤں ، دل سب خیالِ غیر سے پاک کرو اور سرکار ہی کی طرف لو لگائے بڑھو۔
۷۔ ہر گز ، ہر گز مسجدِ اقدس میں کوئی حرف چلاّ کر نہ نکلے۔
۸۔ یقین جانو کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سچی حقیقی دنیاوی جسمانی حیات سے ویسے ہی زندہ ہیں جیسے وفات شریف سے پہلے تھے، ان کی اور تمام انبیائے علیہم الصلوٰۃ والسلام کی موت صرف وعدہِ خدا کی تصدیق کو ایک آن کے لیے تھی ۔ ان کا انتقال صرف نظرِ عوام سے چھپ جانا۔
۹۔ اب اگر جماعت قائم ہو شریک ہو جاؤ کہ اس میں تحیۃ المسجد بھی ادا ہو جائے گی ورنہ اگر غلبۂ شوق مہلت دے اور وقتِ کراہت نہ ہو تو دو رکعت تحیۃ المسجد اور شکر انۂ حاضری دربار محراب نبی میں ورنہ جہاں تک ہو سکے اس کے نزدیک ادا کرو۔
۱۰۔ ادبِ کمال میں ڈوبے ہوئے لرزتے کانپتے گناہوں کی ندامت سے پسینہ پسینہ ہوئے عفو و کرم کی امید رکھتے ہوئے مواجہۂ عالیہ میں حاضر ہو، حضور کی نگاہ بیکس پناہ تمہاری طرف ہوگی اور یہ بات دونوں جہاں میں تمہارے لیے کافی ہے والحمد للہ۔
۱۱۔ اب بکمال ادب جالی مبارک سے کم از کم چار ہاتھ کے فاصلے سے قبلہ کو پیٹھ اور مزار انور کو منہ کرکے نماز کی طرح ہاتھ باندھے کھڑے ہو، اب کہ دل کی طرح تمہارا منہ بھی اس پاک جالی کی طرف ہے نہایت ادب و قار کے ساتھ معتدل آواز سے مجراو تسلیم بجالاؤ اور جہاں تک زبان یاری دے صلوٰۃ وسلام کی کثرت کرو اور عرض کرو۔
السلام علیک ایھا النبی ورحمۃ اللہ برکاتہ، السلام علیک یارسول اللہ السلام علیک یا خیر خلق اللہ، السلام علیک یا شفیع المذ نبین، السلام علیک وعلٰی اٰلک واصحٰبک وامتک اجمعینo
۱۲۔ حضور سے اپنے لیے، اپنے ماں باپ، پیراستاد، اولاد، عزیزوں، دوستوں اور سب مسلمانوں کے لیے شفاعت مانگو اور بار بار عرض کرو۔ اسئلک الشفا عۃ یا رسول اللہ o
۱۳۔ پھر اگر کسی نے عرضِ سلام کی وصیت کی ہو، بجالاؤ۔ شرعاً اس کا حکم ہے۔
۱۴۔ پھر اپنے داہنے ہاتھ یعنی مشرق کی طرف ہاتھ بھر ہٹ کر حضرتِ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے چہرئہ نورانی کے سامنے کھڑے ہو کر عرض کرو السلام علیک یاخلفۃ رسول اللہ السلام علیک یاصاحب رسول اللہ فی الغار ورحمۃ اللہ وبرکاتہo
۱۵۔ پھر اتنا ہی اور ہٹ کر حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے روبر کھڑے ہو کر عرض کرو السلام علیک یا امیرالمو منین السلام علیک یامتمہ الا ربعین السلام علیک یاعز الاسلام والمسلمین ورحمۃ اللہ وبرکاتہo
۱۶۔ پھر بالشت بھر کر مغرب کی طرف پلٹو اور دونوں کے درمیان کھڑے ہو کر عرض کرو۔ السلام علیکما یا خلیفتی رسول اللہo السلام علیکما یا وزیری رسول اللہoالسلام علیکما یا ضحبیعی رسول اللہ ورحمۃ اللہ وبرکاتہ اسلکما الشفاعۃ عند رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وعلیکما وبارک وسلمo
۱۷۔ یہ سب حاضریاں محل اجابت ہے، دعا میں کوشش کرو، دعائے جامع کرو ،درود پر قناعت بہتر۔
۱۸۔ پھر منبر اطہر کے قریب پھر روضۂ جنت میں آکر دو رکعت نفل جب کہ وقت مکروہ نہ ہو پڑھ کر دعا کرو، یونہی مسجدِ قدیم کے ہر ستون کے پاس نماز پڑھو اور دعا مانگو۔
۱۹۔ جب تک مدینہ طیبہ کی حاضری نصیب ہو ۔ایک سانس بیکار نہ جانے دو، ضروریات کے سوا اکثر اوقات مسجد شریف میں باطہارت حاضر رہو، نماز وتلاوت ، درود میں وقت گزارو۔ دنیا کی بات کسی مسجد میں نہ کرنی چاہیے نہ کہ یہاں ہمیشہ ہر مسجد میں جاتے نیت اعتکاف کر لو۔
۲۰۔ یہاں ہر نیکی ایک کی پچاس ہزار لکھی جاتی ہے لہٰذا عبادت میں زیادہ کوشش کرو۔ کھانے پینے میں کمی ضرور کرو اور مدینہ طیبہ میں روزہ نصیب ہو جائے خصوصاً گرمی میں تو کیا کہنا کہ اس پر وعدۂ شفاعت ہے۔
۲۱۔ روضۂ انور پر نظر بھی عبادت ہے تو ادب سے اس کی کثرت کرو اور اس شہر میں یا شہر سے باہر جہاں کہیں گنبد مبارک پر نظر پڑے فوراً دست بستہ ادھر منہ کرکے صلوٰۃ وسلام عرض کرو، بغیر اس کے ہر گز ہرگز روکہ خلافِ ادب ہے۔
۲۲۔ قرآنِ مجید کا کم سے کم ایک ختم یہاں اور حطیم کعبۂ معظمہ میں کر لو۔
۲۳۔ پنجگانہ یا کم از کم صبح شام مواجہہ شریف میں عرض سلا م کے لیے حاضری دو۔
۲۴۔ ترکِ جماعت بلا عذر ہر جگہ گناہ ہے اور کئی بار ہو تو سخت حرام و گناہ کبیر ہ اور یہاں تو گناہ کے علاوہ کیسی سخت محرومی ہے والعیاذ با للہ تعالیٰ، صحیح حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جس کی میری مسجد میں چالیس نمازیں فوت نہ ہوں اس کے لیے دوزخ و نفاق سے آزادیاں لکھی جائیں گی لیکن یہ بات پیش نظر رہے کہ امام صحیح العقید ہ سنی اور دل میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ادب و احترام رکھنے والا ہونا چاہیے۔
۲۵۔ قبر کریم کو ہر گز پیٹھ نہ کرو اور حتیٰ الا مکان نماز میں بھی ایسی جگہ کھڑے ہو کہ پیٹھ کرنی نہ پڑے ۔
۲۶۔ روضۂ انور کا نہ طواف کرو، نہ سجدہ، نہ اتنا جھکناکہ رکوع کے برابر ہو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم ان کی اطاعت میں ہے۔
۲۷۔ وقت رخصت مزار پر انور پر حاضری دو اور مواجہہ شریف میں حضور سے بار بار اس نعمت کی عطا کا سوا ل کرو اور تمام آدابِ رخصت بجا لاؤ اور سچے دل سے دعا کرو کہ الٰہی ایمان و سنت پر مدینہ طیبہ میں مرنا اور بقیع پاک میں دفن ہونا نصیب ہو۔
آمین آمین یا ارحم الرّاحمین ۔