جواب :حشر نشر معاد یوم بعث یوم نشور ساعت، یہ سب قیامت کے نام ہیں ۔ جس طرح دنیا میں ہر چیز انفرادی طریقہ سے فنا ہوتی اور مٹتی رہتی ہے۔ یونہی دنیا کی بھی ایک عمر اللہ تعالیٰ کے علم میں مقرر ہے۔ اس کے پورا ہونے کے بعد ایک دن ایسا آئے گا کہ تمام کائنات فنا ہو جائے گی، اسی کو قیامت کہتے ہیں۔ اس وقت سوا اس ایک اللہ کے دوسرا کوئی نہ ہوگا اور وہ تو ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔
سوال نمبر 2: اس عقیدہ پر ایمان لانا کس حد تک ضروری ہے؟
جواب :حشر و نشر پر ایمان لانا اسلام کے بنیادی عقائد میں سے ایک اہم عقیدہ ہے۔ اس پر ایمان لائے بغیر آدمی ہر گز مسلمان نہیں ہو سکتا۔ یہ عقیدہ اس قدر ضروری ہے کہ اس عقیدے کے بغیر انسان نہ گناہوں سے پوری طرح بچ سکتا ہے ، نہ عبادت میں مشقت اٹھا سکتا ہے نہ جان و مال قربان کر سکتا ہے۔ دنیاوی سزا کا خوف یا بدنامی کا ڈر اسی وقت تک آدمی کو جرم سے باز رکھ سکتا ہے جب تک کہ ظاہر ہو جانے کا خوف ہو اور جب کسی کو یہ یقین ہو جاتا ہے کہ مریا یہ جرم کوئی نہیں جان سکتا تو بے تکلف بڑے سے بڑے جرم کا مرتکب ہو جاتا ہے۔ صرف یہ عقیدہ آدمی کو ارتکاب جرم سے روکتا ہے کہ ہمارے تمام نیک وبد اعمال کی سزا و جزا کا ایک دن مقرر ہے، اسی دن کا نام قیامت ہے۔ اور اس دن کا مالک اللہ تعالیٰ ہے ، دنیا کے اکثر بڑے بڑے عقلاء باوجود اختلاف مذہب کے اس بات پرمتفق ہیں کہ اس زندگی کے بعد کوئی دوسری زندگی بھی آنے والی ہے اور اسی موت تک معاملہ ختم نہیں ہو جاتا اور اس دوسری زندگی میں ہماری سعادت و شقاوت کا مدار ہماری اس زندگی کے اعمال وافعال پر ہے۔ جیسی کرنی ویسی بھرنی۔
سوال نمبر 3: حشر صرف روح کا ہوگا یا روح و جسم دونوں کا؟
جواب :حشر صرف روح کا نہیں بلکہ روح وجسم دونوں کا ہے جو کہے صرف روحیں اٹھیں گی، جسم زندہ نہ ہوں گے، وہ قیامت کا منکر ہے اور کافر ، جسم کے اجزاء اگرچہ مرنے کے بعد متفرق اور مختلف جانوروں کی غذا ہوگئے ہوں مگر اللہ تعالیٰ ان سب اجزاء کو جمع فرما کر پہلی ہیات پر لا کرانھیں پہلے اجزائے اصلیہ پر جو تخمِ جسم ہیں اور محفوظ ہیں ترکیب دے گا اور ہر روح کو اسی جسم سابق میں بھیجے گا جس کے ساتھ وہ متعلق تھی۔
سوال نمبر 4: کائنات کس طرح فنا کی جائے گی؟
جواب :جب قیامت کی نشانیاں پوری ہو لیں گی اور مسلمانوں کی بغلوں کے نیچے سے وہ خوشبو دار ہو گزرے گی جس سے تمام مسلمانوں کی وفات ہو جائے گی۔ اور دنیا میں کافر ہی کافر ہوں گے اور اللہ کہنے والا کوئی نہ ہوگا اور لوگ اپنے اپنے کاموں میں مشغول ہوں گے کہ دفعتہ حضرت اسرافیل علیہ السلام کو صور پھونکنے کا حکم ہوگا۔ شروع شروع میں س کی آواز بہت باریک ہوگی اور رفتہ رفتہ بلند ہوتی جائے گی، لوگ کان لگا کر اسے سنیں گے اور بیہوش ہو جائیں گے۔ اس بیہوشی کا یہ اثر ہو گاکہ ملائکہ اور زمین والوں میں سے اس وقت جو لوگ زندہ ہوں گے، جن پر موت نہ آئی ہو گی وہ اس سے مر جائیں گے اور جن پر موت وارد ہو چکی پھر اللہ تعالیٰ نے انھیں حیات عطا کی اور وہ اپنی قبروں میں زندہ ہیں ۔ جیسے کہ انبیاء وشہداء ان پر اس نفخہ سے بیہوشی کی سی کیفیت طاری ہوگی اور جو لوگ قبروں میں مرے پڑے ہیں انھیں اس نفخہ کا شعور بھی نہ ہوگا۔
زمین و آسمان میں ہلچل پڑ جائے گی۔ زمین اپنے تمام بوجھ اور خزانے باہر نکال دے گی ، پہاڑ ہل ہل کر ریزہ ریزہ ہو جائیں گے ، دھنی ہوئی روئی یا اون کے گالے کی طرح اڑنے لگیں گے۔ آسمان کے تمام ستارے ٹوٹ ٹوٹ کر گر پڑیں گے اور ایک دوسرے سے ٹکڑا کر ریزہ ریزہ ہو کر فنا ہو جائیں گے۔ اسی طرح ہر چیز فنا ہو جائے گی، یہاں تکہ کہ صور اور اسرافیل اور تمام ملائکہ فنا ہو جائیں گے۔ اس وقت سوا اس واحد حقیقی کے کوئی نہ ہوگا۔ وہ فرمائے گا آج کس کی بادشاہت ہے، کہاں ہیں جبارین، کہاں ہیں متکبرین ! مگر ہے کون جو جواب دے پرھ خود ہی فرمائے گا للہ ا لواحد القھار صرف اللہ واحد قہار کی سلطنت ہے۔
سوال نمبر 5: سب سے پہلے کسے دوبارہ زندہ کیا جائے گا؟
جواب :اللہ تعالیٰ جب چاہے گا سب سے پہلے اسرافیل کوزندہ فرمائے گا۔ اور صور کو پیدا کرکے دوبارہ پھونکنے کا حکم دے گا۔ صور پھونکتے ہی تمام اولین و آخرین، ملائکہ انس و جن و حیوانات موجود ہو جایں گے، اول حاملانِ عرش، پھر جبرائیل ، پھر میکائیل، پھر عزرائیل علیہم السلام اٹھیں گے۔ پھر از سر نو زمین، آسمان ، چاند ، سورج موجود ہوں گے، پھر ایک مینہ برسے گا جس سے سبزہ کے مثل زمین کا ہر زی روح جسم کے ساتھ زندہ ہوگا۔ سب سے پہلے حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم قبرِ انور سے یوں برآمد ہوں گے کہ داہنے ہاتھ میں صدیق اکبر کا ہاتھ ہوگا اور بائیں ہاتھ میں فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہما کا ہاتھ، پھر مکہ معظمہ و مدینہ منورہ کے مقابر میں جتنے مسلمان دفن ہیں، سب کو اپنے ہمراہ لے کر میدانِ حشر میں تشریف لے جائیں گے۔
سوال نمبر 6: محشر میں لوگوں کی حالت کیا ہوگی؟
جواب :قیامت کے روز جب لوگ اپنی اپنی قبروں سے ننگے بدن، ننگے پاؤں اٹھیںگے اور اس وقت محشر کے عجیب و غریب منظر کو حیرت زدہ ہو کر ہر طرف نگاہیں اٹھا اٹھا کر دیکھیں گے، مومنوں کی قبروں پر اللہ تعالیٰ کی رحمت سے سواریاں حاضر کی جائیں گے۔ ان میں بعض تنہا سوار ہوں گے اور کسی سواری پر دو۔ کسی پرتین کسی پر چار، کسی پر دس ہوں گے۔ کافر منہ کے بل چلتا ہوا میدان حشہ کو جائے گا۔ کسی کو ملائکہ گھسیٹ کر لے جائیںگے، کسی کو آگ جمع کرے گی، یہ میدان حشر شام کی زمین پر قائم ہوگا اور زمین ایسی ہموار ہوگی کہ اس کانارہ پر رائی کا دانہ گرِ جائے تو دوسرے کنارے پر دکھائی دے۔ یہ زمین دنیا کی زمین نہ ہوگی بلکہ تانبے کی ہوگی، جو اللہ تعالیٰ روزِ قیامت کی محفل کے لیے پیدا فرمائے گا۔
اس دن آفتاب ایک میل کے فاصلہ پر ہوگا اور اس کا منہ اس طرف ہوگا تپش اور گرمی کا کیا پوچھنا، اللہ پنا ہ میں رکھے، بھیجے کھولتے ہوں گے اور اس کثرت سے پسینہ نکلے گا کہ ستر گز زمین میں سے جذب ہو جائے گا، پھر جو پسینہ زمین نہ لے سکے گی وہ اوپر چڑھے گا۔ سکی کے ٹخنوں تک ہو گا کسی کے گھٹنوں تک، کسی کے کمر کمر ، کسی کے یسنہ ، کسی کے گلے تک اور کافر کے تو منہ تک چڑھ کر مثل لگام کے جکڑ جائے گا جس میں وہ ڈبکیاں کھائے گا، اس گرمی حالت میں پیاس کے باعث زبانیں سوکھ کر کانٹا ہو جائیں گی، دل ابل کر گلے تک آجائیںگے اور ہر مبتلا بقدرِ گناہ تکلیف میں مبتلا کیا جائے گا، پھر باوجود ان مصیبتوں کے کوئی کسی کا پرسانِ حال نہ ہوگا، پھر حساب کا دفتر کھلے گا، سب کے اعمال نامے سامنے رکھ دئیے جائیں گے۔ انبیاء علیہم السلام اور دوسرے گواہ دربار میںحاضر ہوں گے اور ہر شخص کے اعمال کا نہایت انصاف سے ٹھیک ٹھیک فیصلہ سنایا جائے گا۔ کسی پر کسی طرح کی زیادتی نہ ہوگی، ان تمام مرحلوں کے بعد اب اسے ہمیشگی کے گھر میں جانا ہے۔ کسی کو آرام کا گھر ملے گا جس کی آسائش کی کوئی انتہا نہیں۔ اس کو جنت کہتے ہیں یا تکلیف کے گھر میں جانا پڑے گا، جس کی تکلیف کی کوئی حد نہیں اسے جہنم کہتے ہیں۔
سوال نمبر 7: حشر نشر ثواب عذاب وغیرہ کا یہی مطلب ہے جو اوپر مذکور ہوا، یا ان کے کچھ اور معنی بھی مراد لیے جاتے ہیں؟
جواب :قیامت و بعث و حشر و حساب و ثواب و عذاب و جنت و دوزخ سب کے وہی معنی ہیں جو مسلمانوں میں مشہور ہیں۔ جو شخص ان چیزوں کو تو حق کہے مگر ان کے نئے معنی گھڑے مثلا کہے کہ جنت صرف ایک اعلیٰ درجہ کی راحت کا نام ہے یا کہے کہ روحانی اذیت کے اعلیٰ درجہ پر محسوس ہونے کا نام دوزخ ہے، یا ثواب کے معنی اپنے حسنات کو دیکھ کر خوش ہونا اور عذاب کے معنی اپنے برے اعمال کو دیکھ کر غمگین ہونا۔ بتائے یا کہے کہ حشر فقط روحوں کا ہوا وہ حقیقتاً ان چیزوں کا منکر ہے اور ایسا شخص قطعاً دائر اسلام سے خارج ہے، یونہی فرشتوں کے وجود کا انکار کرنا یا یہ کہنا کہ فرشتہ نیکی کی قوت کو کہتے ہیں یا جنوں کے وجود کا انکاری یا بدی کی قوت کا نام جن یا شیطان رکھنا کفر ہے۔ غرض حشر نشر، ثواب عذاب، جنت دوزخ وغیرہ کے متعلق جو عقیدے مسلمانوں میں مشہور ہیں اور ان کے جو معنی اہل اسلام میں مراد لیے جاتے ہیں یہی معنی قرآن پاک و احادیث شریفہ میں صاف روشن الفاظ میں بیان کئے گئے ہیں اور ایہ امور اسی طور پر تواتر کے ساتھ منقول ہوتے ہوئے ہم کو پہنچے ہیں تو جو شخص ان لفظوں کا تو اقرار کرے لیکن یوں کہے کہ ان کے ایسے معنی مراد ہیں جو ان کے ظاہر الفاظ سے سمجھ میں نہیں آتے ایسا شخص یقیناً دائر اسلام سے خارج، ضروریاتِ دین کا منکر اور کافر و مرتد ہے۔