۱۔ چلتے وقت اپنے دوستوں، عزیزوں سے ملے اور اپنے قصور معاف کرائے اور وقتِ رخصت سب سے دعا لے اور ان سب کے دین و جان اولادو مال اور تندرستی و عافیت خدا کو وسو نپے کو یہ بھی برکتیں پائے گا اور وہ بھی خدا کی حفاظت میں رہیں گے۔
۲۔ میقات آجائے تو دور کعت بہ نیتِ احرام پڑھے اور حج یا عمرہ جو بھی ادا کرنا ہے بعد سلام نیت میں اس کا نام زبان سے لے اور لبیک کہے، قرآن میں کہے لبیک بالعمرۃ والحج اور تمتع میں لبیک بالمعرۃ اور افراد میں لبیک بالحج کہے۔
۳۔ احرام کی حالت میں جو امور ممنوع و مکروہ ہیں ان سے کلی اجتناب کرے ورنہ ان پر جو جرمانہ ہے ہر طرح دینا آئے گا اگرچہ قصداً ہوں سہواًیا جبراًیا سوتے ہیں۔
۴۔ جب مدعی میں پہنچے جہاں سے کعبۂ معظمہ نظر آئے صدق دل سے دعا کرے اور ذکرِ خدا اور رسول کرتا باب السلام تک پہنچے اور اس آستانۂ پاک کو بوسہ دے کر داخل ہو اور سب کاموں سے پہلے متوجہِ طواف ہو بشرطیکہ نماز فرض خواہ وتر یا سنت موکدہ کے فوت ہونے کا اندیشہ نہ ہو یا جماعت قائم نہ ہو۔
۵۔ شروع جماعت سے پہلے مرد اضطباع کرلے اور کعبہ کی طرف منہ کرکے حجرِ اسود کی داہنی جانب رکن یمانی کی طرف سنگِ اسود کے قریب یوں کھڑا ہو کہ تمام پتھر اپنے سیدھے ہاتھ کو رہے۔
۶۔ پھر طواف کی نیت کرکے کعبہ کو منہ کئے ہوئے اپنی دا ہنی جانب ذرا بڑھ کر سنگِ اسود کے مقابل ہو کر کانوں تک ہاتھ اس طرح اٹھائے کہ ہتھیلیاں حجر کی طرف رہیں اور کہے بسم اللہ والحمد اللہ واللہ اکبر والصلوٰۃ والسلام علٰی رسول اللہ۔
۷۔ میسر ہو سکے تو حجرِ اسود کو بوسیہ دے اور ہجوم کے سبب نا ہو سکے تو ہاتھو ں سے اس کی طرف اشارہ کرکے اسے بوسہ دے اور اللھم ایمانا بک واتبا عا لسنۃ نبیک صلی اللہ علیہ وسلم کہتے ہوئے کعبہ تک بڑھے۔
۸۔ جب حجرِ اسود سے گزر جائے تو خانہ کعبہ کو اپنے بائیں ہاتھ پر لے کر مرورمل کرتا ہو بڑھے۔
۹۔ جب ملتزم، پھر رکنِ عراقی پھر میزابِ رحمت پھر رکنِ شامی کے سامنے آئے تو خاص خاص دعائیں جو ان موقعوںکے لیے آئی ہیں وہ پڑھے اور افضل یہ ہے کہ یہاں اور تمام موقعوں پر اپنے لیے دعا کے بدلے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجے۔
۱۰۔ جب رکن یمانی کے پاس آئے تو اسے تبرکاً چھوئے اور چاہے تو بوسہ بھی دے یہاں ہاتھوں سے اشارہ کرکے ہاتھ چومنا نہیں۔
۱۱۔ رکن یمانی سے بڑھ کر مستجاب پر آئے تو دعا کرے یا پھر درود شریف پڑھے کہ عظیم برکتیں حاصل ہوں گی۔
۱۲۔ دعا و درود چلاّ چلاّ کر نہ پڑھے بلکہ آہستہ آہستہ اس قدر کہ اپنے کان تک آواز آئے۔
۱۳۔ اب کہ دوبارہ آدمی حجرا سود تک آیا یہ ایک پھیرا ہوا، یوں ہی سا ت پھیرے کرے مگر رمل سے پہلے تین پھیروں میں ہے اور باقی چار میں معمولی چال سے چلے۔
۱۴۔ جب ساتوں پھیرے ہو جائیں تو پھر حجرِا اسود کو بوسہ دے اور استلام کرے۔
۱۵۔ بعد طواف مقامِ ابراہیم پر دورکعت کہ واجب ہیں پڑھے اور وقتِ کراہت ہو تو یہ وقت نکل جانے پر پڑھے اور دعا مانگے۔
۱۶۔ پھر ملتزم پر جائے اور قریبِ اسود اس سے لپٹے۔
۱۷۔ پھر زم زم پر آئے اور کعبہ کو منہ کرکے تین سانسوں میں جتنا پیا جائے خوب پیٹ بھر کر پئے اور بدن پر ڈالے اور پتے وقت دعا کرے کہ قبول ہے۔
۱۸۔ پھر ابھی ورنہ آرام لے کر صفا و مروہ میں سعی کے لیے حجرِ اسود پر آئے اور اسی طرح بوسہ وغیرہ دے کر بابِ صفا سے جانبِ صفا روانہ ہو اور ذکر و دعا میں مشغول صفا کی سیڑھیوں پر اتنا چڑھے کہ کعبہ معظمہ نظر آئے اور کعبہ رخ ہو کر دیر تک تسبیح و تہلیل و دعا ودرود کرے۔
۱۹۔ پھر مروہ کو چلے اور جب پہلا میل آئے مرد دوڑنا شروع کر دے یہاں تک کہ دوسرے میل سے نکل جائے پھر آہستہ ہو لے اور مروہ پر پہنچے اور روبۂ کعبہ دعا وغیرہ کرے۔
۲۰۔ پھر صفا کو جائے اور آئے یہاں تک کہ ساتواں پھیر! مروہ پر ختم کرے۔
واضح ہو کہ عمرہ صرف انہیں افعال طواف وسعی کا نام ہے قارن اور مفرد جس نے افراد کیا تھا لبیک کہتے ہوئے احرام کے ساتھ مکہ میں ٹھہریں گے مگر جس نے تمتع کیا تھا اور نرا عمرہ کرنے والا شروع طواف سے سنگِ اسود کا بوسہ لیتے ہی لبیک چھوڑ دیں اور طواف وسعی کے بعد حلق یا تقصیر کرائیں اور احرام سے باہر آئیں اور منیٰ جانے کے لیے یہ سب مکہ معظمہ میں آٹھویں تاریخ کا انتظار کریں۔
۲۱۔ یوم الترویہ کہ آٹھ تاریخ کا نام ہے جس نے احرام نہ باندھا ہو باندھ لے اور جب آفتاب نکل آئے منیٰ کو چلے اور ہو سکے تو پیادہ کہ آرام سے بھی رہے گا اور ثواب عظیم بھی پائے گا۔
۲۲۔ منیٰ میں رات کو ٹھہرے، آج ظہر سے نویں کی صبح تک پانچ نمازیں مسجد خیف میں پڑھے اور شبِ عرفہ منیٰ میں ہو سکے تو ذکر و عبادت میں جاگ کر گزارے۔
۲۳۔ صبح مستحب وقت میں نماز پڑھ کر آفتاب چمکنے پر عرفات کو چلے، راستے بھر ذکرو درود میں بسر کرے، لبیک کی کثرت کرے۔
۲۴۔ عرفات میں جبلِ رحمت کے پاس یا جہاں جگہ ملے راستے سے بچ کراترے اور دوپہر تک زیاوہ وقت اللہ کے حضور زاری اور تصدق وخیرات اور ذکر و لبیک میں مشغول رہے۔
۲۵۔ دوپہر ڈھلتے ہی مسجد نمرہ جائے اور نماز پڑھتے ہی موقف کو روانہ ہو جائے وہ خاص نزولِ رحمت کی جگہ ہے یہاں کھڑے بیٹھے جیسے بن پڑے ذکر و دعا کرے اپنے ربِ کریم کی طرف متوجہ ہو اور لرزتے کانپتے ڈرتے امید کرتے دستِ دعا آسمان کی طرف سرے اونچے پھیلائے ، تکبیر و تہلیل لبیک حمد، ذکر ، دعا، توبہ میں ڈوب جائے یہ وقوف ہی حج کی جان اور اس کا بڑا رکن ہے۔
۲۶۔ جب غروبِ آفتاب کا یقین ہو جائے فوراًمزدلفہ چلے راستے بھر ذکر و درود و دعا ولبیک میں مصروف رہے اور وہاں پہنچ کر جہاں جگہ ملے اترے۔
۲۷۔ یہاں پہنچ کر عشاء کے وقت میں مغرب حتی الامکان امام کے ساتھ پڑھے۔ اس کا سلام ہوتے ہی معاً عشاء کے فرض پڑھے اس کے بعد مغرب و عشاء کی سنتیں اور وتر پڑھے۔
۲۸۔ باقی رات ذکر و لبیک و درود دعا میں گزارے اور نہ ہو سکے تو باطہارت سو رہے اور صبح چمکنے سے پہلے ضروریات سے فارغ ہو کر نمازِ صبح اول وقت میں ادا کرے۔
۲۹۔ جب طلوع آفتاب میں دو رکعت پڑھنے کا وقت رہ جائے منیٰ کو چلے اور یہاں سے سات چھوٹی چھوٹی کنکریاں پاک جگہ سے اٹھا کر تین بار دھو کر اپنے ساتھ لے لے بلکہ تینوں دنوں کے لیے لے لے تو اور اچھا ہے۔
۳۰۔ جب منیٰ پہنچے سب کاموں سے پہلے جمرۂ عقبہ کو جائے، رمی سے فارغ ہو اور فوراً واپس آجائے۔
۳۱۔ اب قربانی میں مشغول ہو جائے، یہ حج کا شکرانہ ہے اور یہاں بھی جانور کی عمر و اعضا میں وہی شرطیں ہیں جو عید کی قربانی ہیں۔
۳۲۔ بعد قربانی روبقبلہ بیٹھ کر مرد حلق کریں اور عورتیں ایک پورا برابر بال کتروائیں۔
۳۳۔ بال دفن کر دے اور یہاں حلق یا تقصیرسے پہلے نہ خاخن کتروانا ہے نہ خط بنوانا۔
۳۴۔ اب عورت سے متعلق چند باتوں کے علاوہ جو کچھ احرام نے حرام کیا تھا سب حلال ہو گیا۔
۳۵۔ افضل یہ ہے کہ آج دسویں ہی تاریخ فرض طواف کے لیے مکہ معظمہ جائے اور بدستور مذکور طواف کرے مگر اس طواف میں اضطباع نہیں۔
۳۶۔ جودسویں کو نہ جائے وہ گیارہویں کو یا بارہویں کو کر لے اس کے بعد بلاعذر تاخیر گناہ ہے جرمانہ میں قربانی کرنی ہوگی، ہاں مثلاً عورت کو حیض آگیا تو ہو اس کے ختم ہونے کے بعد کرے۔
۳۷۔ بہرحال بعد طواف دو رکعتیں ضرور پڑھیں ، حج پورا ہوگیا کہ اس کا دوسرا رکن یہ طواف ہے۔
۳۸۔ دسویں، گیارہویںبارہویں راتیں منیٰ ہی میں بسر کرنا سنت ہے۔
۳۹۔ گیارہویں تاریخ بعد نماز ظہر پھر رمی کو چلے اور رومی جمرۂ اولیٰ سے شروع کرے پھر جمرۂ وسطیٰ پر جائے ، رمی کے بعد کچھ آگے بڑھ کر حضورِ قلب سے دعا واستغار کرے پھر جمرۂ عقبہ پر مگر یہاں رمی کرکے نہ ٹھہرے فوراً پلٹ آئے ، پلٹنے میں دعا کرے۔
۴۰۔ بعینہٖ اسی طرح بارہویں تاریخ تینوں جمرے بعد زوال رمی کرے اور بارہویں کو رمی کرکے غروبِ آفتاب سے پہلے مکہ معظمہ کو روانہ ہو جائے اور جب عزمِ رخصت ہو طوافِ وداع بجالائے مگر اس میں نہ رمل ہے نہ سعی نہ اضطباع ، پھر دو رکعت مقامِ ابراہیم پر پڑھے پھر زمزم پر آئے اور پانی پئے اور بدن پر ڈالے اور دروازۂ کعبہ پر کھڑے ہو کر بوسہ دے اور اُلٹے پاؤں مسجد شریف سے باہر آجائے۔