سوال نمبر 1: حج کسے کہتے ہیں؟
جواب :حج کے لغوی معنی قصداً اور ارادے کے ہیں اور اصطلاحِ شریعت میں حج نام ہے احرام باندھ کر نویں ذی الحجہ کو عرفات میں ٹھہرنے اور کعبہ معظمہ کے طواف کا مکہ کے مختلف مقاماتِ مقدسہ میں حاضر ہو کر کچھ آداب و اعمال بجالانا بھی حج میں شامل ہیں، حج کے لیے ایک خاص وقت مقرر ہے کہ اس میں یہ افعال کئے جائیں تو حج ہے ورنہ نہیں۔ (عامۂ کتب)
سوال نمبر 2: حج کب فرض ہوا اور عمر میں کتنی بار حج فرض ہے؟
جواب :حج ۹ ھ میں فرض ہوا اور اس کی فرضیت قطعی ہے جو اس کی فرضیت کا انکار کرے کافر ہے اور دائرہِ اسلام سے خارج مگر عمر میں صرف ایک بار فرض ہے۔ (عالمگیری، درمختار وغیرہ)
سوال نمبر 3: اسلام میں حج کی کیا اہمیت ہے؟
جواب :حج کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ:
۱۔ حج اسلامی ارکان میں سے پانچواں رکن ہے۔
۲۔ حج ان گناہوں کو مٹا دیتا ہے جو پیشتر ہوئے ہیں۔ (مسلم)
۳۔ حج کمزوروں اور عورتوں کا جہاد ہے۔ (ابنِ ماجہ)
۴۔ حج محتاجی کو ایسا دور کر تا ہے جیسے بھٹی لو ہے کے میل کو (ترمذی)
۵۔ حج مبرور کا ثواب جنت ہی ہے۔ (ترمذی)
۶۔ حاجی کی مغفرت ہو جاتی ہے اور جس کے لیے حاجی استغفار کرے اس کی بھی (طبرانی)
۷۔ حاجی اپنے گھروالوں میں سے چار سو کی شفاعت کرے گا۔ (بزار)
۸۔ حاجی اللہ کے وفد ہیں، اللہ نے انہیں بلایا یہ حاضر ہوئے انہوں نے سوال کیا اللہ نے انہیں دیا۔ (بزار)
۹۔ حاجی کے لیے دنیا میں عافیت ہے اور آخرت میں مغفرت ۔ (طبرانی)
۱۰۔ جو حج کے لیے نکلا اور مر گیا قیامت تک اس کے لیے حج کرنے والے کا ثواب لکھا جائے گا ، اس کی پیشی نہیں ہوگی اور بلاحساب جنت میں جائے گا (دار قطنی)
۱۱۔ جس نے حج کیا یا عمرہ وہ اللہ کی ضمان میںہے ، اگر مر جائے گا تو اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل فرمائے گا اور گھر کو واپس کر دے تو اجر و غنیمت کے ساتھ واپس کریگا۔ (طبرانی)
ان فضائل و برکات کے علاوہ:
۱۲۔ مختلف قوموں، مختلف نسلوں ، مختلف زبانوں، مختلف رنگتوں اور مختلف ملکوں کے اشخاص میں رابطۂ دین کو مضبوط کرنے اور ساری کائنات کے مسلمانوں کو دین واحد کی وحدت میں شامل ہونے کے لیے حج اعلیٰ ترین ذریعہ بھی ہے۔ احکامِ اسلام کا منشا بھی یہی ہے کہ افرادِ مختلفہ کو ملتِ واحدہ بنا کر کلمہ توحید پر جمع کر دیا جائے۔
۱۳۔ حج میں سب کے لیے وہ سادہ بغیر سلا لباس جو ابو البشر سےّد آدم علیہ السلام کا تھا تجویز کیا گیا ہے تاکہ ایک ہی رسول، ایک ہی قرآن ، ایک ہی کعبہ پر ایمان رکھنے والے ایک ہی صورت، ایک ہی لباس، ایک لی ہیت اور ایک ہی سطح پر نظر آئیں اور چشمِ ظاہر بین کو بھی اتحادِ معنوی رکھنے والوں کے اندر کوئی اختلافِ ظاہری محسوس نہ ہو سکے۔
۱۴۔ حج سے مقصود شوکتِ کا اظہار بھی ہے اور مسلمانوں کو بحری ، بری اور اب فضائی سفروں سے جو فوائد سمندروں ، میدانوں اور فضاؤں سے حاصل ہو سکتے ہیں وہ بھی اس مقصود کے ضمن میں داخل ہیں۔
۱۵۔ بادشاہ کا جو مقصود شاند ار درباروں کے انعقاد سے ______________
کانفرنس کا جو مقصود سالانہ جلسوں کے اجتماع سے______________
اور ایوانِ تجارت کا جو مقصود عالمگیر نمائشوں کے قیام سے ہوتا ہے وہ سب حج کے اندر ملحوظ ہیں۔
۱۶۔ آثارِ قدیمہ اور طبقات الارض کے ماہرین کو تاریخ عالم کے محققین کو، جغرافیہ عالم کے ماہرین کو جن باتوں کی تلاش و طلب ہوتی ہے وہ سب امور حج سے پورے ہو جاتے ہیں۔
۱۷۔ حج کے مقامات عموماً پیغمبرانہ شان اور ربانی نشان کی جلوہ گاہ ہیں جہاں پہنچ کر اور جنہیں دیکھ کر ان مقدس روایات کی یادیں تازہ ہو جاتی ہیں اور خدائی رحمت و برکت کے وہ واقعات یاد آ جاتے ہیں۔ جو ان سے وابستہ ہیں الغرض محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس شریعت کا صحیفہ لے کر آئے اس کی سب سے بری خصوصیت یہی ہے کہ وہ دین و دنیا کی جامع ہے اور اس کا ایک ایک حرف مصلحتوں اور حکمتوں کے دفتروں سے معمور ہے اور اس کے احکام و عبادات کے دنیاوی و اخروی فوائد واغراض خود بخود چشم حق بین کے سامنے آجاتے ہیں اور تا قیامت آتے رہیں گے۔
حدیث شریف میں فرمایا گیا کہ جس نے خدا کے لیے حج کیا اور اس میں ہوسِ نفسانی اور گناہ کی باتوں سے بچا تو وہ ایسا ہو کر لوٹتا ہے جیسے اس دن تھا جس دن اس کی ماں نے اسے جنا۔
یعنی حاجی ایک نئی زندگی ایک نئی حیات اور ایک نیا دور شروع کرتا ہے جس میں دین و دنیا دونوں کی بھلائیاں اور کامیابیاں شامل ہوتی ہیں، تو حج اسلام کا صرف مذہبی رکن ہی نہیں بلکہ وہ اخلاقی، معاشرتی، اقتصادی، سیاسی یعنی قومی و ملی زندگی کے ہر رخ اور ہر پہلو پر حاوی اور مسلمانوں کی عالمگیر بین الاقوامی حیثیت کا سب سے بڑا بلند منارہ ہے۔
سوال نمبر 4 حج کے اخلاقی فوائد کیا ہیں؟
جواب :عام مسلمان جو دور دراز مسافتوں کو طے کرکے اور ہر قسم کی مصیبتوں کو جھیل کر دریا ، پہاڑ، جنگل ، آبادی او ر صحرا کو عبور کرکے یہاں جمع ہوتے ، ایک دوسرے سے ملتے، ایک دوسرے کے درد و غم سے واقف اور حالات سے آشنا ہوتے ہیں جس سے ان میں باہمی اتحاد اور تعاون کی روح پید ا ہوتی ہے اور سب مل کر باہم ایک قوم ایک نسل اور ایک خاندان کے افراد نظر آتے ہیں۔
حج کے لیے یہ ضروری ہے کہ احرام باندھنے سے لے کر احرام اتارنے تک ہر حاجی نیکی و پاکبازی اور امن و سلامتی کی پوری تصویر ہو، وہ لڑائی جھگڑا اور دنگا فساد نہ کرے ، کسی کو تکلیف نہ دے یہاں تک کہ بدن یا کپڑوں کی جوں یہاں تک کہ کسی چیونٹی تک کو نہ مارے شکار تک اس کے لیے جائز نہیں کیونکہ وہ اس وقت ہمہ تن صلح و آشتی اور مجسم امن وامان ہوتا ہے۔
قرآن کریم کا ارشاد ہے:
فلا رفث ولا فسوق ولا جدال فی الحج o
ترجمہ: یعنی حالتِ احرام میں نہ عورتوں کے سامنے شہوانی تذکرہ ہو، نہ کوئی گناہ، نہ کسی سے جھگڑا۔
کیسا صریح حکم ہے کہ زمانۂ حج میں حالتِ احرام میں اشارۃً یا کنایۃً بھی شہوانی خیالات زبان پر نہ لائے جائیں پھر حالتِ احرام میں جب متعدد جائز مشغلے مثلاً شکار ناجائز ہو جاتے ہیں تو بڑی چھوٹی قسم کی معصیت و نافرمانی کی گنجائش ظاہر ہے کہاں نکل سکتی ہے، یونہی اس زمانہ میں مار پیٹ، ہاتھا پائی الگ رہی زبانی حجت و تکرار جو اکثر ایسے موقعوں پر ہو جا یا کرتی ہے سب احرام کی حالت میں ممنوع ہے۔ حتیٰ کہ خادم کو ڈانٹنا تک جائز نہیں۔
اور عبادت میں طہارت و پاکیزگی کا اسلام کا قائم کیا ہوا یہ وہ معیار ہے جو آپ اپنا جواب ہے اور جس نے اپنوں ہی کو نہیں بیگانوں کو بھی متاثر کیا ہے۔