جواب :انبیاء و مرسلین کے مبعوث فرمانے (بھیجنے) میں اللہ تعالیٰ کی بڑی حکمت اور اپنے بندوں پر بڑی رحمت ہے۔ اس نے اپنے ان رسولوں کے ذریعہ سے اپنی رضا مندی اور ناراضی کے کاموں سے آگاہ کر دیا اس لیے کہ جب ہم لوگ باوجود ہم جنس ہونے کے کسی دوسرے شخص کی صحیح رائے بغیر اس کے ظاہر کئے ہوئے نہیں معلوم کر سکتے اور یہ نہیں جانتے کہ یہ کس چیز سے خوش اور راضی ہے اور کس چیز سے ناخوش و ناراض ہے۔ تو اللہ تعالیٰ کی مرضی و نامرضی کو بغیراللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے کیوں کر جان سکتے تھے؟ نہ کسی کو عذاب و ثواب کی اطلاع ہو سکتی تھی، نہ عالم آخرت کی باتیں معلوم ہو سکتی تھیں، نہ عبادت کا صحیح طریقہ معلوم ہو سکتا تھا، نہ عبادت کے ارکان و شرائط اور آداب کا پتہ لگ سکتا تھا۔ اور اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات تک رسائی تو خیال میں بھی نہیں آسکتی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کی ہدایت و رہنمائی کے لیے انسانوں میں سے کچھ برگزیدہ انسان ایسے پیدا کئے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے بندوں کے درمیان واسطہ ہوتے ہیں۔ یہ برگزیدہ بندے اللہ کی طرف لوگوں کو بلاتے ہیں تاکہ پیغمبروں کے بعد پھر لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے سامنے کوئی حجت باقی نہ رہے، ان کی اطاعت کرنے والا مقبول اور مخالف مردود ہے۔
سوال نمبر 2: تنہا عقل انسان کی رہنمائی کر سکتی ہے یا نہیں؟
جواب :اگر اللہ تعالیٰ ہمیں تنہا ہماری عقلوں پر چھوڑ دیتا تو ہم کبھی پورے طور سے سعادت و نجات کا راستہ نہیں معلوم کر سکتے تھے۔ دنیا کے عقلا کا حال ہم دیکھ رہے ہیں کہ مادیات و مشاہدات (رات دن مشاہدے اور تجربہ میں آنے والی چیزوں) میں بھی ایک بات پر متفق نہیں ہیں۔ بلکہ ایک ہی شخص کبھی کچھ اور کبھی کچھ رائے قائم کر لیتا ہے۔ تو روحانیت اور عالم غیب و عالم آخرت کے بارے میں وہ کیونکر صحیح بات معلوم کر سکتے تھے۔ لہٰذا ماننا پڑے گا کہ بغیر واسطہ پیغمبر تنہا عقل انسانی سعادت و نجات کا کما حقہ راستہ معلوم نہیں کر سکتی۔
سوال نمبر 3: انبیاء سب بشر تھے ، اس میں کیا حکمت ہے؟
جواب :اللہ تعالیٰ کی یہ بھی بڑی حکمت اور رحمت ہے کہ وہ اپنا نبی و رسول نبی نوع بشر سے منتخب فرماتا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ فرشتوں میں سے کسی دوسری مخلوق میں سے ہمارے لیے رسول بھیجتا تو وہ ہماری عادات و خصائل سے واقف نہ ہوتا، نہ اس کو ہم پر وہ شفقت ہوتی جو ایک ہم جنس دو سرے ہم جنس سے ہوتی ہے، دوسرا اس کی طرف ہمارا میلان طبعی نہ ہوتا نہ اس کی باتوں میں ہم اس کی پیروی کر سکتے اور نہ ہماری کمزوریوں کا اسے احساس ہوتا۔
سوال نمبر 4: وحی کسے کہتے ہیں؟
جواب :وحی کے لغوی معنی ہیں ’’کسی بات کا دل میں آہستہ ڈالنا‘‘ اور شریعت میں وحی کے معنی ہیں وہ کلام الٰہی جو پیغمبروں پر مخلوق کی ہدایت و رہنمائی کے لیے نازل ہوا۔ سنت الٰہی اس طرح جاری ہے کہ خداوند عالم اپنی مخلوق سے دو بدو گفتگو نہیں کرتا، لیکن مخلوق کی ہدایت اس وقت تک نہیں ہو سکتی جب تک احکامات الٰہی ان تک کسی ذریعہ سے نہ پہنچ جائیں ۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے پیغمبروں پر وحی نازل فرمائی اور ان کے ذریعہ سے اپنے بندوں کو نیک و بد سے آگاہ کر دیا۔
وحی کا لفظ قرآن شریف میں لغوی اور شرعی دونوں معنوں میں استعمال کیا گیا ہے۔
سوال نمبر 5: نزول وحی کے کتنے طریقے ہیں؟
جواب :انبیاء علیہم السلام پر وحی کے چار طریقے ہیں:
۱۔ کسی غیبی آواز کا سنائی دینا۔ ۲۔ کسی بات کا دل میں خود بخود پیدا ہو جانا۔
۳۔ صحیح اور سچے خوابوں کا دیکھنا چنانچہ نبی کو خواب میں جو چیز بتائی جاتی ہے وہ بھی وحی ہے، اس کے چھوٹے ہونے کا احتمال نہیں۔
۴۔ کسی فرشتہ کا انسانی شکل میں ہو کر آنا اور پیغام الٰہی پہنچانا۔
سوال نمبر 6: الہام کے کیا معنی ہیں؟
جواب :ولی کے دل میں بعض وقت سوئے یا جاگتے میں کوئی بات القاء ہوتی ہے اس کو الہام کہتے ہیں۔
سوال نمبر 7: وحیٔ شیطانی کسے کہتے ہیں؟
جواب :شیطان اپنے رفیقوں یعنی کاہن، ساحر اور دوسرے کافروں اور فاسقوں کے دل میں کوئی بات ڈال دیتا ہے اسے لغوی معنی کے اعتبار سے وحی شیطانی کہتے ہیں ۔ یہ لوگ ایک دوسرے کو فریب دہی اور ملمع سازی کی چکنی چپڑی باتیں سکھاتے ہیں تاکہ انھیں سن کر لوگ ان کی طرف مائل ہو جائیں اور ان کو پسند کرنے لگیں اور پھر کبھی برے کاموں اور کفر و فسق کی دلدل سے نہ نکلنے پائیں۔ لیکن جو خدا کے نیک بندے ہیں وہ ان کے اغوا میں نہیں آتے بلکہ لاحول بھیج کر دوسرے نیک کاموں میں مصروف رہتے ہیں۔
سوال نمبر 8: اللہ تعالیٰ نے کل کتنے انبیاء مبعوث فرمائے؟
جواب :انبیاء علیہم السلام کی کوئی تعداد مقرر کرنا جائز نہیں کہ خبریں اس باب میں مختلف ہیں اور تعداد معین پر ایمان رکھنے میں نبی کی نبوت سے خارج ماننے یا غیر نبی کو نبی جاننے کا احتمال ہے اور یہ دونوں باتیں کفر ہیں لہٰذا اجمالاً یہ اعتقاد چاہیے کہ ہر نبی پر ہمارا ایمان ہے۔
سوال نمبر 9: کیا ہر ملک اور ہر قوم میں کوئی نہ کوئی نبی گزرا ہے؟
جواب :قرآن کریم سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ہر امت میں اور ہر ملک میں ایک رسول ہوا جو انھیں دین حق کی دعوت دیتا اور خدا کی بندگی وطاعت کا حکم دیتا اور ایمان کی طرف بلاتا تاکہ خدا کی حجت تمام ہو اور کافروں اور منکروں کو کوئی عذر نہ رہے۔ اب یہ احکام پہنچانے والا خواہ نبی ہو یا نبی کا قائم مقام عالم دین جو نبی کی طرف سے خلق خدا کو اللہ تعالیٰ کا خوف دلائے۔
سوال نمبر 10: رام اور کرشن کو جنھیں ہندو مانتے ہیں، نبی کہہ سکتے ہیں یا نہیں؟
جواب :اللہ و رسول کو جنھیں تفصیلاً نبی بتایا اور قرآن و حدیث میں ان کا تذکرہ آیا ان پر تفصیلاً نا م بنام ایمان لائے اور باقی تمام انبیاء پر ہم اجمالاً ایمان لائے ہیں۔ خدا و رسول نے ہم پر یہ لازم نہیں کیا کہ ہر رسول کو ہم جانیں، یا نہ جانیں تو خواہی نخواہی اندھے کی لاٹھی سے ٹٹولیں کہ شاید یہ ہو، شاید یہ ہو، کا ہے کے لیے ٹٹولنا ہزاروں امتوں کا ہمیں نام و مقام تک معلوم نہیں نہ قطعی طور پر انبیاء کی صحیح تعداد معلوم ہے کہ کتنے پیغمبر دنیا میں آئے اور قران عظیم یا حدیث کریم میں رام و کرشن کا ذکر تک نہیں بلکہ ان کے وجود پر بھی ہمارے پاس کوئی دلیل نہیں کہ یہ واقعی کچھ اشخاص تھے یا محض ہندوؤں کے تراشیدہ خیالات ہیں، اور ہندوؤں کی کتابوں میں جہاں ان کا ذکر آتا ہے ، وہیں ان کے فسق و فجور، بداعمالیوں اور بد اخلاقیوں کا پتہ چلتا ہے۔ اب اگر ہندوؤں کی کتابیں درست مانی جائیں تو یہ بھی ماننا پڑے گا کہ رام و کرشن فاسق و فاجر اور بد کردار بھی تھے اور جو ایسا ہو وہ ہر گز نبی نہیں ہو سکتا کہ انبیاء کرام معصوم ہوتے ہیں۔ ان کی تربیت و نگرانی اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے، ان سے گناہ سر زد ہو ہی نہیں سکتا۔
غرض یہ کہ سوائے ان نبیوں کے جن کے نام قرآن و حدیث میں مذکور ہیں، کسی شخص کے متعلق تعین سے نہیں کہا جا سکتا کہ وہ نبی یا رسول تھے۔
سوال نمبر 11: انبیاء کرام کو غیب کا علم ہوتا ہے یا نہیں؟
جواب :بے شک اللہ عزوجل نے انبیاء علیہم السلام کو غیب کا علم عطا فرمایا۔ زمین وآسمان کا ہر زرہ ہر نبی کے پیش نظر ہے مگر یہ علم غیب جو کہ ان کو ہے، اللہ کے دینے سے ہے۔ لہٰذا ان کا علم عطائی ہوا۔ نبی کے معنی ہیں غیب کی خبر دینے والا، انبیاء علیہم السلام غیب کی خبریں دینے کے لیے ہی آ تے ہیں کہ جنت و نارو حشر و نشرو عذاب و ثواب غیب نہیں تو اور کیا ہیں؟ ان کا منصب ہی یہ ہے کہ وہ باتیں ارشاد فرمائیں، جن تک عقل و حواس کی رسائی نہیں، اور اسی کا نام غیب ہے ۔ اولیاء کو بھی علم غیب عطائی ہوتا ہے مگر بوا سطہ انبیاء کے۔
سرورِ کائنات ﷺ
سوال نمبر 12: خدا کی سار ی مخلوق میں سے سب سے افضل کون ہے؟
جواب :ہمارے نبیصلی اللہ علیہ وسلم تمام مخلوقات الٰہی میں سب سے افضل وبالا اور بہتر و اعلیٰ ہیں کہ اوروں کو فرداً فرداً جو کمالات عطا ہوئے حضور میں وہ سب جمع کر دئیے گئے اور ان کے علاوہ حضور کو وہ کمالات ملے جن میں کسی کا حصہ نہیں، بلکہ اوروں کو جو کچھ ملا حضور کے طفیل میں بلکہ حضور کے دست اقدس سے ملا۔ محال ہے کہ کوئی حضور کا مثل ہو، جو کسی صفت خاصہ میں کسی کو حضور کا مثل بتائے ، گمراہ ہے یا کافر۔
سوال نمبر 13: حضور کے فضائل و کمالات کا خلاصہ کیاہے؟
جواب :۱۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ عزوجل نے مرتبہ محبوبیت کبریٰ سے سر فراز فرمایا، انھیں اپنا محبوب خاص و حبیب بنایا کہ تمام خلق رضائے الٰہیکی خواہش مند ہے اور اللہ عزوجل مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا کا طالب ہے۔
خدا کی رضا چاہتے ہیں دو عالم
خدا چاہتا ہے رضا ئے محمد (ﷺ)
۲۔ تمام مخلوق اولین و آخرین حضور کی نیاز مند ہے یہاں تک کہ ابراہیم خلیل اللہ۔
۳۔ قیامت کے دن شفاعت کبریٰ کا مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے خصائص سے ہے۔
۴۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت مدار ایمان ہے بلکہ ایمان اسی محبت ہی کا نام ہے۔
۵۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت و فرمانبرداری عین اطاعت الٰہی ہے، اطاعت بے اطاعت حضور ناممکن ہے۔
۶۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم جزو ایمان ورکن ایمان ہے اور فعل تعظیم ، ایمان کے بعدہر فرض سے مقدم ہے۔
عمل سے علی کے یہ ثابت ہوا ہے
کہ اصل عبادت تری بندگی ہے
۷۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم و توقیر جس طرح اس وقت تھی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس عالم میں ظاہری نگاہوں کے سامنے تشریف فرما تھے اب بھی اسی طرح فرض اعظم ہے۔
۸۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے کس قول و فعل و عمل و حالت کو جو بنظرحقارت دیکھے یا دیدہ و دانستہ کسی سنت کی توہین کرے وہ کافر ہے۔
۹۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم اللہ عزوجل کے نائب مطلق ہیں۔ تمام جہان حضور کے ماتحت ہے، جو چاہیں کریں اور جو چاہیں حکم دیں، تما م جہان ان کے حکم کا پھیرنے والا کوئی نہیں، سارا علم ان کا محکوم ہے۔
۱۰۔ جنت و نار کی کنجیاں دست اقدس میں دے دی گئیں ۔ رزق و خیر اور ہر قسم کی عطا ئیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے دربار سے تقسیم ہوتی ہیں۔
۱۱۔ احکام شریعت حضور کے قبضہ میں کر دئیے گئے کہ جس پر جو چاہیں حرام فرما دیں ، جو چاہیں حلال فر ما دیں اور جو فرض چاہیں معاف کردیں۔
۱۲۔ سب سے پہلے مرتبہ نبوت حضو ر صلی اللہ علیہ وسلم کو ملا۔ روز میثاق اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء سے حضور پر ایمان لانے اور حضور کی نصرت کرنے کا عہد لیا اور اسی شرط پر یہ منصب اعظم ان کو دیا گیا۔
۱۳۔ حضور نبی الانبیاء میں اور تمام انبیاء حضور کے امتی، سب نے اپنے عہد میں حضور کو نائب ہو کر کام کیا۔
۱۴۔ اللہ عزوجل نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی ذات کا مظہر بنایا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نور سے تمام عالم کو منو ر فرمایا بایں معنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہر جگہ تشریف فرما ہیں۔
(اللھم صل و سلم بارک علیہ و آلہٖ و اصحابہٖ ابداً)
سوال نمبر 14: حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق و عادات کیا تھے؟
جواب :نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو زندگی کے مبارک ا حوال و واقعات ہر ملک اور ہر طبقہ کے فرد اور جماعتوں کے لیے بہترین نمونہ اور مثال ہیں اور ان واقعات کے ضمن میں اس نبی عربی (فداہ ابی وامی) کے اخلاق و عادات اور خصائل و صفات کی چمک ایسی نمایاں ہے جیسے ریت میں کندن، یہاں مختصر طور پر ان کا ذکر کیا جاتا ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خندہ رو، ملنسار، اکثر خاموش رہنے والے ، بکثرت ذکر خدا کرنے والے ، لغویات سے دور ، بیہودہ پن سے نفور (بیزار) رہتے تھے۔ زبان مبارک پر کبھی کوئی گندی بات یا گالی نہیں آتی تھی اور نہ کسی پر لعنت کیا کرتے تھے۔
مساکین سے محبت فرمایا کرتے ، غرباء میں وہ رہ کر خوش ہوتے ۔ کسی فقیر کو اس کی تنگدستی کی وجہ سے حقیر نہ جانا کرتے اور کسی بادشاہی کی وجہ سے برا نہ جانتے غلام و آقا۔ حبشی و ترکی میں ذرا فرق نہ کرتے۔ جنگی قیدیوں کی خبر گیری مہمانوں کی طرح کرتے، جانی دشمنوں سے بکشادہ پیشانی ملتے ، مجلس میں کبھی پاؤں پھیلا کر نہ بیٹھتے ، جو کوئی مل جاتے اسے پہلے سلام کرتے اور مصافحہ کے لیے خود ہاتھ بڑھاتے ، کسی کی بات قطع نہ فرماتے۔ اگر نماز نفل میں ہوتے اور کوئی شخص پاس آبیٹھتا تو نماز کو مختصر کر دیتے اور اس کی ضرورت پوری کرنے کے بعد پھر نماز میں مشغول ہو جاتے۔ اپنی جان پر تکلیف اٹھالیتے مگر دوسرے شخص کو ازراہِ حیا کام کرنے کو نہ فرماتے۔ زمین پر بلا کسی مسند و فرش کے تشریف رکھتے، گھر کا کام کاج بلا تکلیف کرتے، اپنے کپڑے کو خود پیوند لگا لیتے۔ گھر میں صفائی کر لیتے، بکری دوہ لیتے ، خادم کے ساتھ بیٹھ کر کھالیتے خادم کو اس کے کام کاج میں مدد دیتے۔ بازار سے چیز خود جا کر خرید لاتے، جو کچھ کھانا سامنے رکھ دیا جاتا اسے بہ رغبت کھا لیتے۔
کنبہ والوں اور خادموں پر بہت مہربان تھے۔ ہر ایک پر رحم فرمایا کرتے ۔ کسی سے کچھ طمع نہ رکھتے، سر مبار ک کو جھکائے رکھتے ۔ جو شخص یکبارگی آپ کے سامنے آجاتا وہ ہیبت زدہ ہو جاتا اور جو کوئی پاس آ بیٹھتا و فدائی بن جاتا۔
آپ سب سے زیادہ بہادر و شجاع اور سب سے زیادہ سخی تھے۔ جب کسی چیز کا سوال کیا جاتا فوراً عطا فرما دیتے۔ سب سے زیادہ حلیم و بردبار تھے اور سب سے زیادہ حیادار۔ آپ کی نگاہ کسی کے چہرے پر ٹھہرتی نہ تھی۔ آپ ذاتی معاملات میں کسی سے انتقام نہ لیتے تھے اور نہ غصہ ہوتے تھے، ہاں جب خدائی احکام کی خلاف ورزی ہوتی تو غضب کے آثار چہرہ پر نمایاں ہوتے تھے اور پھر کوئی آپ کے سامنے ٹھہر نہیں سکتا تھا۔ کثرت سے اللہ تعالیٰ کا ذکر فرماتے اور بے کار باتوں سے پرہیز کرتے تھے۔ خوشبو کو پسند اور بدبو سے نفرت فرماتے تھے، اہل کمال کی عزت بڑھاتے تھے، کبھی کبھی ہنسی اور خوش طبعی کی باتیں فرماتے تھے۔
لیکن اس وقت بھی وقار کے خلاف کبھی نہ بولتے تھے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آپ کا خلق قرآن مجید تھا یعنی جس چیز کو قرآن پسند نہ کرتا تھا آپ بھی اسے پسند نہ فرماتے تھے۔
(اللھم صل و سلم بارک علیہ و آلہ و اصحابہ ابداً)
سوال نمبر 15: حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کتنے معجزات ظاہر ہوئے؟
جواب :جس طرح حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فضائل و کمالات لا انتہاء و بے شمار ہیں یونہی آپ کے معجزات جو صحیح روایات سے ثابت ہیں، ان کا شمار بہت زیادہ ہے اور ہر ایک نبی کے معجزات سے ان کی تعداد بھی زیادہ۔ اور کیفیت کے لحاظ سے بھی تمام انبیائے سابقین سے افضل ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت میں تمام انبیاء و مرسلین کی شان نظر آتی ہے اس لیے آپ کے معجزات میں وہ تمام معجزات آجاتے ہیں جو ان برگزیدہ ہستیوں سے ان کے زمانہ میں ظاہر ہوئے۔
ڈوبے ہوئے سورج کو پلٹانا ، اشارے سے چاند کے دو ٹکڑے کر دینا، انگلیوں سے پانی جاری ہونا، تھوڑے سے طعام کو کثیر جماعت کے لیے کافی ہو جانا، دودھ کو معمولی مقدار سے کثیر افراد کو سیراب ہونا، کنکروں کا تسبیح پڑھنا، لکڑی کے ستون میںایسی صفت پیدا ہو جانا جو خاص انسانی صفت ہے یعنی نہ صرف تھر تھرانا اور رونا بلکہ فراق محبوب کا اس میں احساس پیدا ہونااو پر اس کا رونا، درختوں اور پتھروں کا آپ کو سلام کرنا، درختوں کو بلانا اور ان کا آپ کے حکم پر چل کر آنا، درندوں اور موذی جانوروں کا آپ کا نام سن کر رام ہو جانا اور ہزاروں پیشگوئیوں کا آفتاب کی طرح صادق ہونا وغیرہ وغیرہ ہزاروں معجزات ہیں جو نہ صرف آیات و صحیح احادیث سے ثابت ہیں بلکہ بہت سے غیرمسلم بھی اس کا اقرار کرتے ہیں اوران کی کتابوں میں بھی ان کا ذکر پایا جاتا ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات میں سے آپ کا یہ بھی ایک عظیم الشان معجزہ ہے کہ آپ نے دلوں کو بدل دیا اور روحوں کو پاکیزہ بنا دیا۔ جو لوگ آپ کے جانی دشمن تھے، جاں نثار دوست بن گئے۔
پھر ایک فرق اور ابھی ہے ۔ پہلے انبیاء کرام کے معجزات جو حسی اور عادی تھے وہ صرف ان کی مقدس ہستیوں تک محدود تھے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ قرآن کریم آج بھی ہر مسلمان کے ہاتھ میں ہے۔ جس کے مقابلہ میں دنیا کی ساری قوتیں اور جن وانسان عاجز ہیں ، قرآن کریم زندہ ، دائمی اور ابدی معجزہ ہے، (فصلی اللہ تعالیٰ وسلم و بارک علیہ قدر جاہہ و جلا لہ وعلیٰ آلہ واصحابہ اجمعین برحمتک یا ارحم الراحمین)
سوال نمبر 16: حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے رحمتہ اللعالمین ہونے کا کیا مطلب ہے؟
جواب :رحمت کے معنی ہیں پیار ، ترس، ہمدردی، غمگساری ، محبت اور خیر گیری کے، اور لفظ عالم کا استعمال خدا کی ساری مخلوق کے لیے ہوتا ہے۔ عالمین اس کی جمع ہے رب العالمین نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو رحمتہ للعالمین فر ما کر یہ ظاہر کر دیا کہ جس طرح پروردگار کی الوہیت عام ہے ۔ اور اس کی ربوبیت سے کوئی ایک چیز بھی مستغنی نہیں رہ سکتی اسی طرح کوئی چیز حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خبر گیری اور فیضان محبت اور ہمدردی سے مستثنیٰ نہیں۔
علمائے کرام فرماتے ہیں کہ ہر نعمت تھوڑی ہو یا بہت چھوٹی ہو یا بڑی جسمانی ہو یا روحانی ، دینی ہو یا دینوی ، ظاہری ہو یا باطنی روز اول سے اب تک ، اب سے قیامت تک ، قیامت سے آخرت اور آخرت سے ابد تک ، مومن یا کافر، فرمانبردار یا نافرمان، ملک یا انسان ، جن یا حیوان بلکہ تمام ماسوی اللہ میں جسے جو نعمت ملی یا ملتی ہے یا ملے گی انہی کے ہاتھ پر بٹی اوربٹتی ہے اور بٹے گی۔ یہی اللہ کے خلیفہ اعظم ہیں ، یہی ولی نعمت عالم ہیں، وہ خودارشاد فرماتے ہیں۔’’ انما انا قاسم واللہ معطی‘‘ دینے والا تو اللہ ہے اور تقسیم کرنے والا میںہوں۔
غرض خدائی نعمتوں کی تقسیم انھیں کے مبارک ہاتھوں سے ہوتی ہے اور بارگاہ الٰہی سے جسے جو ملتا ہے انھیں کے واسطے سے ملتا ہے۔ یہی معنی ہیں رحمتہ للعالمین کے۔
سوال نمبر 17: حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے علم شریف کے متعلق اہل سنت کا عقیدہ کیا ہے؟
جواب :تمام اہل سنت و جماعت کا اس پر اجماع ہے کہ جس طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے تمام کمالات میں جملہ انبیاء و مرسلین سے افضل واعلیٰ ہیں اسی طرح آپ کمالات علمی میں بھی سب سے فائق ہیں۔ قرآن کریم کی بہت سی آیات اور احادیث کثیرہ سے یہ بات ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام کائنات یہ علوم عطا فرمائے اور علوم غیب کے دروازے آپ پر کھولے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر ہر چیز روشن فرمادی اور آپ نے سب کچھ پہچان لیا۔ جو کچھ آسمانوں اور زمین پر ہے سب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے علم میں آگیا۔ آدم علیہ الصلوٰۃوالسلام سے لے کر قیام قیامت تک تمام مخلوق سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم پر پیش کی گئی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے گزشتہ و آئندہ ساری مخلوق کو پہچان لیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہر شخص کو اس سے زیادہ پہچانتے ہیں جتنا ہم میں سے کوئی اپنے ساتھی کو پہچانے اور امت کا ہر حال ، ان کی ہر نیت ، ان کے ہر ارادے اور ان کے دلوں کے خطرے سب حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر روشن ہیں۔
وہ خود ارشاد فرماتے ہیں کہ اللہ عزوجل نے میرے سامنے دنیا اٹھا لی ہے، تو میں اسے اور جو کچھ اس میں قیامت تک ہونے والا ہے سب کو ایسا دیکھ رہا ہوں جیسے اپنی اس ہتھیلی کو دیکھتا ہوں اور جو کچھ ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا پورا علم نہیں بلکہ علم حضور سے ایک چھوٹا حصہ ہے ۔ حضور کے علوم کی حقیقت خود وہ جانیں یا ان کا عطا کرنے والا ان کا مالک و مولیٰ جل جلالہ۔
یہاں یہ بات ہمیشہ کے لیے زہن نشین کر لینی چاہیے کہ علم غیب ذاتی اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہے اور انبیاء و اولیاء کو غیب کا علم اللہ تعالیٰ کی تعلیم سے عطا ہوتا ہے۔ بغیر اللہ تعالیٰ کے بتائے کسی چیز کا علم کسی کو نہیں اور یہ کہنا کہ اللہ تعالیٰ کے بتائے سے بھی کوئی نہیں جانتا محض باطل اور صد ہا آیات و احادیث کے خلاف ہے۔ اپنے پسندیدہ رسولوں کو علم غیب دئیے جانے کی خبر خود اللہ تعالیٰ نے سورئہ جن میں دی ہے اور بارش کا وقت اور حمل میں کیا ہے اور کل کو کیا کرے گااور کہاں مرے گا؟ ان امور کی خبریں بھی بکثرت انبیاء و اولیاء نے دی ہیں اور کثیر آیتیں اور حدیثیں اس پر دلالت کرتی ہیں۔