جواب :کتب سماوی کا مطلب ہے آسمانی کتابیں۔ یعنی وہ صحیفے اور کتابیں جو اللہ تعالیٰ نے مخلوق کی رہنمائی کے لیے اپنے نبیوں پر اتاریں۔ یہ سب کلام اللہ ہیں اور حق ان میں جو کچھ ارشاد ہوا۔ سب پر ایمان ضروری ہے۔
سوال نمبر 2: ان کتابوں میں سب سے افضل کون سی کتاب ہے؟
جواب :چاروں اور زبور عبرانی زبان میں انجیل سریانی زبان میں اور قرآن کریم عربی زبان میں نازل ہوا۔
سوال نمبر 3:جب یہ کتابیں سب کلام اللہ ہیں تو قرآن کریم کے افضل ہونے کے کیا معنی ہوتے؟
جواب :کلام الٰہی میں بعض کا بعض سے افضل ہونا، اس کے معنی یہ ہین کہ ہمارے لیے اس میں ثواب زیادہ ہے۔
سوال نمبر 4: تورات وانجیل وغیرہ دوسری کتابوں پر ہم عمل کر سکتے ہیں یا نہیں؟
جواب :نہیں، اس لیے کہ اول تو یہود و نصاریٰ نے ان میں تحریفیں کر دیں یعنی اپنی خواہش سے گھٹا بڑھا دیا اس لیے یہ کتابیں جیسی نازل ہوئی تھیں ویسی ملتی ہی نہیں اور دوسری بات یہ ہے کہ قرآن کریم نے اگلی کتابوں کے بہت سے احکام منسوخ کر دئیے لہٰذا ہم اگر یہ فرض بھی کر لیں کہ صحیح تورات وانجیل اس وقت بھی موجود ہیں تو بھی ان کتابوں کی ضرورت با قی نہیں رہتی۔ قرآن کریم میں وہ سب کچھ ہے جس کی حاجت نبی آدم کو ہوتی ہے۔
سوال نمبر 5: منسوخ ہونے کا کیا مطلب ہے؟
جواب :نسخ کا مطلب یہ ہے کہ بعض احکام کسی خاص وقت کے لیے ہوتے ہیں مگر یہ ظاہر نہیں کہا جاتا کہ یہ حکم فلاں وقت تک کے لیے ہے۔ جب یہ میعاد پوری ہو جاتی ہے۔ تو دوسرا حکم نازل ہو جاتا ہے۔ جس سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ پہلا حکم اٹھا دیا گیا اور درحقیقت دیکھا جائے تو اس کے وقت کا ختم ہونا بتایا گیا ، پہلے حکم کو منسوخ اور دوسرے کو ناسخ کہتے ہیں۔
سوال نمبر 6: اس کا مطلب یہ ہوا کہ جو حکم منسوخ کیا گیا وہ باطل نہیں ہوتا اور جو اسے باطل کہے وہ کون ہے؟
جواب :منسوخ کے معنی بعض لوگ باطل ہونا کہتے ہیں۔ یہ بہت سخت بات ہے ۔ احکام خداوندی سب حق ہیں وہاں باطل کی رسائی کہاں۔
سوال نمبر 7: جس ترتیب پر آج قرآن موجود ہے کیا ایسا ہی نازل ہوا تھا؟
جواب :نزول وحی کے وقت یہ ترتیب نہ تھی جو آج ہے۔ قرآن مجید ۲۳برس کی مدت میں تھوڑا تھوڑا حسب حاجت نازل ہوا۔ جس حکم کی حاجت ہوتی اسی کے مطابق سورت یا کوئی آیت نازل ہو جاتی۔
سوال نمبر 8: پھر قرآن کریم کی ترتیب کس طرح عمل میں آئی؟
جواب :قرآن عظیم متفرق آئتیں ہو کر اترا۔ کسی سورت کی کچھ آیتیںاترتیں پھر دوسری سورت کی آئتیں نازل ہوتیں جبر یل علیہ السلام اس کا مقام بھی بتا دیتے اور حضور پر نور صلی اللہ علیہ وسلم ہر بار ارشاد فرماتے کہ یہ آیات فلاں سورت کی ہیں فلاں آیت کے بعد فلاں آیت سے پہلے رکھی جائیں۔ اس طرح قرآن عظیم کی سورتیں اپنی اپنی آیتوں کے ساتھ جمع ہو جاتیں اور خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم اسی ترتیب سے اسے نمازوں ، تلاوتوں میں پڑھتے۔ پھر حضور سے سن کر صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم یاد کر لیتے۔ غرض قرآن عظیم کی ترتیب اللہ تعالیٰ کے حکم سے جبریل علیہ السلام کے بیان کے مطابق اور لوح محفوظ کی ترتیب کے موافق خو د حضو ر صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ اقدس میں واقع ہوئی تھی۔
سوال نمبر 9: مکی سورتوں اور مدنی سورتوں کا کیا مطلب ہے؟
جواب :وہ سورتیں جو مکہ معظمہ میں اور اس کے اطراف میں نازل ہوئیں ان کو مکی کہتے ہیں اور جو مدینہ منورہ اور اس کے قریب وجوار میں نازل ہوئیں ان کو مدنی کہتے ہیں۔
سوال نمبر 10: مکی اور مدنی سورتوں کے مضمون میں کیا فرق ہے؟
جواب :باعتبار مضامین کے مکی اور مدنی سورتوں میں یہ فرق پایا جاتا ہے کہ مکی سورتوں میں عموماً اصولی عقائد یعنی توحید و رسالت اور حشر و نشر کا بیان ہے اور مدنی سورتوں میں اعمال کا ذکر ہے مثلاً وہ احکام جن سے اخلاق درست ہوں اور مخلوق کے ساتھ زندگی بسر کرنے کا طریقہ معلوم ہو، مدنی سورتوں میںبیان کئے گئے ہیں۔
سوال نمبر 11: آسمانی کتاب سے کیا مطلب ہے؟
جواب :خدا کی کتاب جو اس نے اپنے بندوں کی رہنمائی اور ہدایت کے لیے اتاری تاکہ بندے اللہ اور اس کے رسولوں کو جانیں اور ان کی مرضی اور ان کی مرضی و حکم کے مطابق کام کریں۔
سوال نمبر 12: اللہ تعالیٰ نے کل کتنی کتابیں اتاریں؟
جواب :بہت سے نبیوں پر اللہ تعالیٰ نے صحیفے اور آسمانی کتابیں اتاریں جن کی صحیح تعداد اللہ جانے اور اللہ کا رسول، البتہ ان میں سے چار کتابیں بہت مشہور ہیں۔ توریت حضرت موسیٰ علیہ السلام پر اتاردی۔ زبور حضرت داؤد علیہ السلام پر نازل کی۔ انجیل حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو عطا ہوئی اور قرآن کریم کہ سب سے افضل کتاب ہے ، سب سے افضل رسول محبوب کبریا حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو عنایت فرمائی گئی۔
سوال نمبر 13: کیا قرآن کریم کے سوا باقی کتابیں آج کل صحیح موجود ہیں؟
جواب :جی نہیں، آج روئے زمین پر قرآن کریم کے سوا صحیح توریت ، صحیح انجیل اور صحیح زبور کہیں نہیں پائی جاتی ۔ عیسائی ، یہودی اور اگلی امت کے شریروں نے اپنی خواہش کے مطابق انھیں گھٹا بڑھا دیاتو وہ جیسی اتری تھیں ویسی ان کے ہاتھوں میں باقی نہ رہیں۔
سوال نمبر 14: موجودہ توریت و انجیل کو کس طرح مانا جائے؟
جواب :جب کوئی بات ان کتابوں کی ہمارے سامنے پیش ہو تو اگر وہ قرآن کریم کے مطابق ہے ہم اس کی تصدیق کریں گے اور مان لیں گے اور اگر ہماری کتاب کے خلاف ہے تو ہم یقین جانے گے کہ یہ ان شریروں کی تحریف ہے کہ انھوں نے کچھ کاکچھ کر دیا ۔
سوال نمبر 15: اور اگر موافق مخالف ہونا کچھ معلوم نہ ہو تو کیا حکم ہے؟
جواب :ایسی صورت میں ہمیں حکم ہے کہ ہم نہ اس کی تصدیق کریں نہ انکا ر بلکہ یوں کہیں: اٰٰ منت باللہ وملٰٓئکتہٖ و کتبہٖ ورسلہٖ ’’اللہ اور اس کے فرشتے اور اس کی کتابوں اور رسولوں پر ہمارا ایمان ہے ‘‘۔
سوال نمبر 16: کیا قرآن شریف میں کمی بیشی ہو سکتی ہے؟
جواب :نہیں، چونکہ یہ دین ہمیشہ باقی رہنے والا ہے لہٰذا قرآن شریف کی حفاظت اللہ عزوجل نے اپنے ذمہ رکھی ہے۔ اس لیے اس میں کسی حرف یا نقطہ کی بھی کمی بیشی نہیں ہو سکتی نہ کوئی اپنی خواہش سے اس میں گھٹا بڑھا سکتا ہے اگر چہ تمام دنیا اس کے بدلنے پر جمع ہو جائے۔
سوال نمبر 17: جس کا یہ عقیدہ ہو کہ قرآن کریم میں کمی بیشی جائز ہے وہ کون ہے؟
جواب :جو یہ کہے کہ قرآن شریف کا ایک حرف بھی کسی نے کم کر دیا یا بڑھا دیا، یا بدل دیا وہ قطعاً کافراور دائرہ اسلام سے خارج ہے۔
سوال نمبر 18: صحیفہ کسے کہتے ہیں؟
جواب :مخلوق کی ہدایت کے لیے اللہ تعالیٰ کی اتاری ہوئی چھوٹی چھوٹی کتابیں یا ورق جو قرآن شریف سے پہلے اتارے گئے انھیں صحیفے کہتے ہیں۔ ان صحیفوں میں اچھی اچھی مفید نصیحتیں اور کار آمد باتیں ہوتی تھیں۔
سوال نمبر 19: کل کتنے صحیفے ہیں اور کس کس پر اتارے گئے؟
جواب :صحیح تعداد تو اللہ تعالیٰ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی کو معلوم ہے ۔ ہمیں تو یہ پتہ چلتا ہے کہ کچھ صحیفے حضرت آدم علیہ السلام پر اتارے گئے۔ کچھ آپ کے بیٹے حضرت شیث علیہ السلام پر ، کچھ حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام پر، کچھ حضرت ادریس علیہ السلام پر اور کچھ حضرت موسیٰ علیہ السلام پر بھی اتارے گئے۔
سوال نمبر 20: کیا قرآن شریف جیسی کوئی اور کتاب پائی جاسکتی ہے؟
جواب :ہر گز نہیں ! قرآن شریف بے مثل کتاب ہے جو بے مثال نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمائی گئی۔ اس امی ّ لقب امین نے اس کتاب کو عرب جیسی قوم کے سامنے پیش کیا اسے اپنی نبوت کی دلیل ٹھہرایا اور صاف اعلان کر دیا کہ اگر سارا نہیں تو قرآن جیسی دس سورتیں ہی بنالاؤ بلکہ یہ بھی فرمادیا کہ دس نہیں تو ایسی ایک ہی سورت پیش کرو۔ لیکن دنیا جانتی ہے کہ ان کی عقلیں چکراگئیں اور اگر وہ ایسا کر سکتے تو اس ذلت کو کیوں گوارا کر تے کہ انھیں اور ان کے معبودوں کو دوزخ کا ایندھن بتایا جا رہا تھا۔ تو جب اہل عرب اس جیسی اور کوئی سورت بلکہ آیت بھی نہ لا سکے۔ تو دوسرا کون اس کا مقابلہ کر سکتا ہے؟
سوال نمبر 21: کیا ہندوؤں کے پاس کوئی خدا کی کتاب ہے؟
جواب :نہیں، اور وید جسے وہ آسمانی کتاب کہتے ہیں پرانے زمانے کے شاعروں کی نظموں کا مجموعہ ہے، کلام الٰہی ہر گز نہیں۔