جواب :دنیا و آخرت کے درمیان ایک اور عالم ہے جسے برزخ کہتے ہیں۔ مرنے کے بعد اور قیامت سے پہلے تمام اِنس وجن کو حسبِ مراتب اس میں رہنا ہے اور یہ عالم اس دنیا سے بہت ہے۔ دنیا کے ساتھ برزخ کو وہی نسبت ہے جو ماں کے پیٹ کے ساتھ دنیا کو ہے۔ برزخ میں کسی کو آرام ہے۔ کسی کو تکلیف۔
سوال نمبر 2:مرنے کے بعد روح و جسم میں تعلق رہتا ہے یا نہیں؟
جواب :مرنے کے بعد بھی روح کا تعلق بدن انسان کے ساتھ باقی رہتا ہے ۔ اگرچہ روح جسم سے جدا ہو گئی مگر بدن پر جو گزرے گی روح ضرور اس سے آگاہ و متاثر ہوگی جس طرح حیاتِ دنیا میں ہوتی ہے بلکہ اس سے زائد ۔ دنیا میں پانی ٹھنڈا، سر د ہوا، نرم فرش، لذید کھانا سب باتیں جسم پر وارد ہوتی ہیں، مگر راحت و لذت روح کو پہنچتی ہے اور ان کے عکس بھی جسم ہی پر وارد ہوتے ہیں۔ مگر کلفت و اذیت روح پاتی ہے۔ اور روح کے لیے خاص اپنی راحت و الم کے الگ اسباب ہیں جن سے سرور یا غم پیدا ہوتا ہے۔ بعینہٖ یہی سب حالتیں برزخ میںہیں۔
سوال نمبر 3: برزخ میں میت پر کیا کیا باتیں گزرتی ہیں؟
جواب :۱۔ ضغطئہ قبر یعنی جب مردہ کو قبر میں دفن کرتے ہیں اس وقت قبر اس کو دباتی ہے۔ اگر وہ مسلمان ہے تو اس کا دبانا ایسا ہوتا ہے جیسے ماں پیار میں اپنے بچے کو زور سے چپٹا لیتی ہے اور اگر کافر ہے تو اس کو اس زور سے دباتی ہے کہ ادھر کی پسلیاں ادھر اور ادھر کی ادھر ہو جاتی ہیں۔
۲۔ جب دفن کرنے والے دفن کرکے وہاں سے چلتے ہیں، وہ ان کے جوتوں کی آواز سنتا ہے ۔ اس وقت اس کے پاس ہیبت ناک صورت والے منکر و نکیر نامی دو فرشتے اپنے دانتوں سے زمین چیرتے ہوئے آتے ہیں اور نہایت سختی کے ساتھ کرخت آواز میں اس سے سوال کرتے ہیں کہ تیر ا رب کون ہے؟ تیرا دین کیا ہے؟ اور ان کے (یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے )بارے میں تو کیا کہتا تھا؟
۳۔ مرد ہ مسلمان ہے تو جواب دے گا میرا رب اللہ ہے، میرا دین اسلام ہے اور وہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔
۴۔ مردہ اگر منافق ہے تو سب سوالوں کے جواب میں کہے گا ، افسوس ! مجھے تو کچھ معلوم نہیں، میں جو لوگوں کو کہتے سنتا تھا، خود بھی کہتا تھا۔
۵۔ مسلمان میت کی قبر کشادہ کر دی جائے گی اور اس کے لیے جنت کی طرف ایک دروازہ کھول دیا جائے گا جس سے جنت کی خوشبو آتی رہے۔
۶۔ نافرمان مسلمانوں میں ان کی معصیت کے مطابق بعض پر عذاب بھی ہوگا پھر ان کے پیر ن عظام یا اولیائے کرام کی شفاعت یا محض رحمت سے جب اللہ چاہے گا نجات پائیں گے۔ بعض
کے نزدیک مسلمان پر سے قبر کا عذاب جمعہ کی رات آتے ہی اٹھا دیا جاتا ہے۔
۷۔ کافر و منافق میت کے لیے آگ کا بچھونا بچھا کر اور آگ کا لباس پہنا کر جہنم کی طرف ایک درواز ہ کھول دیا جائے گا اور اس پر فرشتگان عذاب مقرر کر دئیے جائیں گے،نیز سانپ بچھو اسے عذاب پہنچاتے رہیں گے۔
۸۔ مسلمان کے اعمال حسنہ مقبول و محبوب صورت میں آکر انھیں انس دیں گے اور کافر و منافق کے برے اعمال کتا یا بھڑیا یا اور شکل کے ہو کر اس کو ایذا پہنچائیں گے۔
۹۔ مسلمان کی ارواح خواہ قبر پر ہوں یا چاہ زمزم شریف میں یا آسمان وزمین کے درمیان یا آسمانوں پر یا آسمانوں سے بلند یا زیرِ عرش قندیلوں میں اعلیٰ علّےین میں خواہ کہیں ہوں، ان کی راہ کشادہ کر دی جاتی ہے۔ جہاں چاہتی ہیں آتی جاتی ہیں، آپس میں ملتی ہیں اور اپنے اقارب کا حال ایک دوسرے سے دریافت کرتی ہیں اور جو کوئی قبر پر آئے اسے دیکھتی پہچانتی اور اس کی بات سنتی ہیں۔
۱۰۔ کافروں کی خبیث روحیں مرگھٹ وغیرہ میں قید رہتی ہیں۔ کہیں آنے جانے کا انھیں اختیار نہیں مگر وہ بھی کہیں ہوں قبر یا مرگھٹ پر گزرنے والوں کو دیکھتی پہچانتی اور ان کی باتیں سنتی ہیں۔
۱۱۔ مردہ جواب سلام دیتا ہے اور کلام بھی کرتا ہے اور اس کے کلام کو عوام جن اور انسان کے سوا اور تمام حیوانات وغیرہ سنتے بھی ہیں۔
سوال نمبر 4: ثواب و عذاب صرف جسم پر ہے یا روح و جسم دونوں پر؟
جواب :عذاب و ثواب روح اور جسم دونوں پر ہوتا ہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ ایک لنجاکسی باغ میں پڑا تھا اور میوے دیکھ رہا تھا، مگر ان تک نہ جا سکتا تھا، اتفاقاً ایک اندھے کا ادھر سے گزر ہو جو کہ باغ میں جاستا تھا مگر میوے اسے نظر نہ آتے تھے۔ لنجے نے اندھے سے کہا کہ تو مجھے باغ میں لے چل، وہاں جا کر ہم اور تم دونوں میوے کھائیں ۔ اندھا اس کو اپنی گردن پر سوار کر کے باغ میں لے گیا۔ لنجے نے میوے توڑے اور دونوں نے کھائے۔ اس صورت میں مجر م کون ہو گا؟
سوال نمبر 5: جب جسم قبر میں گل جائے گا تو عذاب ثواب کس پر ہوگا؟
جواب :جس اگر چہ گل جائے، خاک ہو جائے مگر اس کے اجزائے اصلےّہ قیامت تک باقی رہیں گے وہی مور دِ عذاب و ثواب ہوں گے اور انہی پر روزِ قیامت دوبارہ ترکیب جسم فرمائی جائے گی جس کو عجب الذنب کہتے ہیں ، وہ ریڑھ کی ہڈی میں کچھ ایسے اجزء ہیں کہ نہ کسی خوردبین سے نظر آسکتے ہیں نہ آگ انھیں جلا سکتی ہے نہ زمین انھیں گلا سکتی ہے۔ وہی تخمِ جسم اور موردِ عذاب و ثواب ہیں۔ عذاب قبر اور تنیعمِ قبر حق ہے۔ اس کا انکار وہی کرے گا جو گمراہ ہے۔
سوال نمبر 6: مردہ اگر دفن نہ کیا جاے تو اس سے سوالات کہاں ہوں گے؟
جواب :مردہ اگر قبر میں دفن نہ کیا جائے ، تو جہاں پڑا رہ گیا یا پھینک دیا گیا اس سے وہیں سوالات ہوں گے اور وہیں ثواب یا عذاب اسے پہنچے گا۔ یہاں تک کہ جسے شیر کھا گیا تو شیر کے پیٹ میں ہی سوال و جواب اور ثواب و عذاب جو کچھ ہو، پہنچے گا۔
سوال نمبر 7: وہ کون لوگ ہیں جن کے اجسام محفوظ رہیں گے؟
جواب :انبیاء علیہم السلام اور اولیائے کرام اور علمائے دین و شہدا، وحافظانِ قرآن جو کہ قرآن مجید پر عمل کرتے ہوں اور وہ جو منصبِ محبت پر فائز ہیں اور وہ جسم جس نے کبھی اللہ عزوجل کی نافرمانی نہ کی اور وہ کہ اپنے اوقات درود شریف کی قرات میں مشغول رکھتے ہیں ۔ ان کے بدن کو مٹی نہیں کھا سکتی۔ اور جو شخص انبیاء کرام کی شان میں یہ خبیث کلمہ کہے کہ ’’وہ مرکر مٹی میں مل گئے‘‘ وہ توہین کا مرتکب اور گمراہ بدین ہے۔
سوال نمبر 8: زندوں کی خیر خیرات سے مردوں کو فائدہ پہنچتا ہے یا نہیں؟
جواب :نماز، روزہ، زکوٰۃ، صدقہ، حج، تلاوت قرآن ، ذکر ، زیارت قبور ، خیر خیرات۔ غرض ہر قسم کی عبادت اور ہر عمل نیک، فرض و نفل کا ثواب مردوں کو پہنچایا جاسکتا ہے۔ ان سب کو پہنچے گا اور اس کے ثواب میں کچھ کمی نہ ہوگی۔ بلکہ اس کی رحمت سے امید ہے کہ سب کو پورا ملے گا، یہ نہیں کہ اسی ثواب کی تقسیم ہو کہ ٹکڑا ٹکڑا ملے، بلکہ یہ امید کہ اس پہچانے والے کو ان سب کے مجموعہ کے برابر ملے مثلاً کوئی نیک کام کیا جس کا ثواب کم از کم دس ملے گا ۔ اس نے دس مردوں کو پہنچایا تو ہر ایک کو دس دس ملیں گے اور اس کو ایک سو دس۔ وعلیٰ ہذالقیاس۔ حدیث شریف میں وارد ہے کہ ’’جو شخص گیارہ با ر قل ہو اللہ شریف پڑھ کر اس کا ثواب مردوں کو پہنچائے گا تو مردوں کی گنتی کے برابر اسے ثواب ملے گا‘‘۔ اور نابالغ نے کچھ پڑھ کر یا کوئی نیک عمل کرکے اس کا ثواب مردے کو پہنچایا تو انشاء اللہ تعالیٰ پہنچے گا۔
یہاں یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ فرض کا ثواب پہنچا دیا تو اپنے پاس کیا رہ گیا؟ اس لیے کہ ثواب پہنچانے سے فرض اس کے ذمہ سے ساقط ہو چکا پھر وہ عود نہ کرے گا ورنہ ثواب کس شے کا پہنچاتا ہے لہٰذا فاتحۂ مروجہ جو کہ ایصال ثواب کی ایک صور ت ہے یہ جائز بلکہ محمود اور شرعاً مطلوب ہے۔
سوال نمبر 9: ایصالِ ثواب کا طریقہ کیا ہے؟
جواب :ایصالِ ثواب جسے عرف میں فاتحہ یااولیائے کرام کو جو ایصال ثواب کرتے ہیں اسے تعظیماً نذر و نیاز کہتے ہیں کہ اس میں سورئہ فاتحہ پڑھی جاتی ہے۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ سورئہ فاتحہ و آیتہ الکرسی ایک بار اور تین یا سات یا گیارہ بار سورئہ اخلاص اور اول آخرتین یا زائد درود شریف پڑھے اس کے بعد ہاتھ اٹھا کر عرض کرے کہ الٰہی! میرے اس پڑھنے پر (اور اگر کھانا کپڑاوغیرہ بھی ہوں تو ان کا نام بھی شامل کرے اور کہے کہ میرے اس پڑھنے اور ان چیزوں کے دینے پر) جو ثواب مجھے عطا ہو اسے میرے عمل کے لائق نہ دے بلکہ اپنے کرم کے لائق عطا فرما اور اسے میری طرف سے فلاں ولی اللہ (مثلاً حضور پر نور سید نا غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کی بارگاہ میں نذر پہنچا اور ان کے آباء کرام و مشائخ عظام و اولاد و مریدین اور محبین اور میرے ماں باپ اور فلاں اور فلاں اور سیدنا آدم علیہ السلام سے روز قیامت تک جتنے مسلمان ہو گزرے یا موجود ہیں یا قیامت تک ہوں گے س سب کو اس کا ثواب پہنچا‘‘۔ اس کے بعد دونوں ہاتھ چہرے پر پھیرلے۔