سوال نمبر 1: کیا کسی نماز میں قرأت کی کوئی خاص مقدارآئی ہے؟
جواب :چھوٹی آیت جس میں دو یا دو سے زیادہ کلمات ہوں، پڑھ لینے سے فرض ادا ہو جائے گا اور پوری سورئہ فاتحہ اور اس کے ساتھ ایک چھوٹی سورت یا تین چھوٹی آیتیں یا ایک دو آئیتں تین چھوٹی آیتوں کے برابر پڑھ لینے سے قرأت کی مقدار واجب ادا ہو جاتی ہے۔ نماز خواہ فرض ہو یا نفل اور قرأت کی اس سے زائد مقدار کسی نماز میںلازم نہیں، البتہ مسنون ہے۔
سوال نمبر 2: فرض نمازوں میں کتنی کتنی قرأت مسنون ہے؟
جواب :سفر میں اگر امن و قرار ہو تو سنت یہ ہے کہ فجر و ظہر میں سورئہ بروج یا اس کی مثل سورتیں پڑھے اور عصر و عشاء میں اس سے چھوٹی اور مغرب میں قصارمفصل کی چھوٹی سورتیں اور جلدی ہو تو ہر نماز میں جو چاہے پڑھے۔
اور حضر یعنی حالت اقامت میں جبکہ وقت تنگ نہ ہو تو سنت یہ ہے کہ فجر وظہر میں طوال مفصل پڑھے اور عصر و عشاء میں اوساط مفصل اور مغرب میں قضا مفصل اور ان سب صورتوںمیں امام و منفرد دونوں کا ایک ہی حکم ہے۔
سوال نمبر 3: طوال مفصل، اوساط مفصل اور قصار مفصل کسے کہتے ہیں؟
جواب :سورئہ حجرات (پارہ حمٰ ۲۶) سے آخر تک قرآن مجید کی سورتوں کو مفصل کہتے ہیں، اس کے یہ تین حصے ہیں، سورئہ حجرات سے سورئہ بروج تک زوال مفصل اور سورئہ بروج سے سورئہ لم یکن تک اوساطِ مفصل اور لم یکن سے آخر تک قصار مفصل۔
سوال نمبر 4: کسی ضرورت سے قرأت مسنونہ چھوڑ دیں تو کیا حکم ہے؟
جواب :اضطراری حال میں مثلاً وقت جاتے رہنے کا خوف ہو یا دشمن یا چور کا اندیشہ ہو تو قرأتِ مسنونہ ترک کر دینے میں کوئی مضائقہ نہیں بلکہ بقدر حال پڑھے خواہ سفر میں ہو یا حضر میں یہاں تک کہ اگر واجبات کی رعایت نہیں کر سکتا تو اس کی بھی اجازت ہے مثلاً فجر کا وقت اتنا ہے کہ صرف ایک ایک آیت پڑھ سکتا ہے تو یہی کرے مگر بلندی آفتاب کے بعد نماز کا اعادہ کر لے یا مثلاً سنت فجر میں جماعت جانے کا خوف ہو تو صر ف واجبات ادا کرے، ثناء و تعوذ کو ترک کرے اور رکوع و سجود میں ایک بار تسبیح پڑھے۔
سوال نمبر 5: قرأت مسنونہ پر زیادتی جائز ہے یا نہیں؟
جواب :اگر مقتدیوں پر شاق نہ ہو تو قرأت مسنونہ پرقدرے زیادتی کی جاسکتی ہے لیکن اگر ان پر گراںگزرے تو قرأت مسنونہ پر زیادت نہ کرے بلکہ حدیث شریف میں ہے کہ جب کوئی اوروں کو نماز پڑھائے تو تخفیف کرے کہ ان میں بیمار، کمزور اور بوڑھے بھی ہوتے ہیں اور جب اپنی پڑھے تو جس قدر چاہے طول دے۔
سوال نمبر 6: قرأت ہر رکعت کے برابر ہونی چاہیے یا کم و بیش؟
جواب :فجر کی پہلی رکعت کو بہ نسبت دوسری کے دراز کرنا مسنون ہے اور اس کی مقدار رکھی گئی ہے کہ پہلی میں دو تہائی اور دوسری میں ایک تہائی اوربہتر یہ ہے کہ اور نمازوں میں پہلی رکعت کی قرأت دوسری سے قدرے زیادہ ہو، یہی حکم جمعہ و عیدین کا بھی ہے اور سنن و نوافل میں دونوں رکعتوں میں برابر کی سورتیں پڑھے۔
سوال نمبر 7: دوسری رکعت میں پہلی سے زیادہ قرأت کرنے کا کیا حکم ہے؟
جواب :دوسری رکعت کی قرأت پہلی سے طویل کرنا مکروہ ہے ۔ جب کہ سورتوں کی آیتیں برابر کی ہوں اور یہ زیادتی بقدر تین آیت ہو، اور اگر سورتوں کی آیتیں چھوٹی بڑی ہوں تو آیتوں کی تعداد کا اعتبار نہیں بلکہ حروف و کلمات تک کا اعتبار ہے۔ اگر کلمات و حروف میںبہت تفاوت ہے تو کراہت ہے اگرچہ آیتیں گنتی میں برابر ہوں ورنہ نہیں۔ مثلاً پہلی میں الم نشرح پڑھی اور دوسری میں لم یکنتو کراہت ہے، اگرچہ دونوں میں آٹھ آیتیں ہیں۔
سوال نمبر 8: نماز میں کسی سورت کو ہمیشہ کے لیے مقرر کر لینا کیسا ہے؟
جواب :سورتوں کا تعین کر لینا کہ اس نماز میں ہمیشہ وہی سورت پڑھا کرے مکروہ ہے مگر جو سورتیں احادیث میں وارد ہیں ان کو کبھی کبھی تبر کا پڑھ لینا مستحب ہے مگر ہمیشہ نہ پڑھے کہ کوئی واجب گمان کر ے۔
سوال نمبر 9: فجر کی سنتوں اور وتر میں قرأت مسنونہ کیا ہے؟
جواب :حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی سنتوں میں پہلی رکعت میں اکثر قل یا ایہاالکٰفرون اور دوسری رکعت میں پڑھتے تھے۔ اور وترمیں پہلی رکعت میں سبح اسم رکب الاعلیٰاور کبھی انا انزلنادوسری قل یا ایہا الکٰفرون اور تیسر ی میں قل ھو اللہپڑھتے ، یونہی جمعہ وعیدن کی پہلی رکعت میں سبح اسماور دوسری میں ھل اتاکپڑھناسنت ہے اور یہ اس قاعدے سے متشنٰی ہے جو اوپر مذکور ہوا۔ (یعنی سوال نمبر ۱۱۷ میں)
سوال نمبر 10: ترتیب کے خلاف قرآن مجید پڑھنا کیسا ہے؟
جواب :خلاف ترتیب قرآن شریف پڑھنا کہ دوسری رکعت میں پہلی والی سے اوپر کی سورت پڑھے یہ مکروئہ تحریمی ہے مثلاً پہلی میں قل ایھا الکٰفرونپڑھی اور دوسری میں ا لم ترکیفہاں اگر بھول کر دوسری رکعت میں اوپر کی سورت شروع کر دی پھر یاد آیا تو جو شروع ہو چکا ہے اسی کو پورا کرے۔ اگرچہ ابھی ایک ہی حرف پڑھا ہو۔
سوال نمبر 11: نماز میں ایک ہی سور ت مکرر پڑھ لینا کیسا ہے؟
جواب :دونوں رکعتوں میںایک ہی سورت کی تکرار مکروئہ تنزیہی ہے جبکہ کوئی مجبوری نہ ہو اور مجبوری ہوتو بالکل کراہت نہیں مثلاً دوسری میں بلاقصد وہی پہلی سورت شروع کر دی یا دوسری سور ت یاد نہیں آتی یا پہلی رکعت میںپوری قل اعوذ برب الناسپڑھی تو اب دوسری میں بھی یہی پڑھے اور نوافل کی دونوں رکعتوں میں ایک ہی سورت کو مکرر پڑھنا یاایک رکعت میں اسی سورت کو بار بار پڑھنا بلا کر اہت جائز ہے۔
سوال نمبر 12: درمیان سے سورت چھوڑنے کا حکم کیا ہے؟
جواب :پہلی رکعت میںکوئی سورت پڑھی اور دوسری ایک چھوٹی سورت درمیان سے چھوڑ کر پڑھی تو مکروہ ہے اگر وہ درمیان کی سورت پہلی سورت سے بڑی ہے تو حرج نہیں جیسیوا لتین کے بعد انا انزلنا پڑھنے میں حرج نہیں جیسے ازا جآئکے بعد قل ھوا للہ پڑھنی چاہیے۔
سوال نمبر 13: تلاوت قرآن کریم کے فضائل (خوبیاں) کیا ہیں؟
جواب :قرآن کریم پڑھنے اور پڑھانے کے بہت سے فضائل ہیں۔ اجمالی طور پر اتنا سمجھ لینا کافی ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے۔ اس پر اسلام اور احکام اسلام کا مدار ہے۔ اس کی تلاوت کرنا، اس میں تدبر اور غور و فکر کرنا آدمی کو خدا تک پہنچاتا ہے۔ جس طرح یہ مقد س کتاب تمام علوم کی جامع ہے اسی طرح اس کا یاک ایک کلمہ اور ایک ایک حرف بے نہایت برکات کا سر چشمہ ہے۔
اس کے فضائل میں سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:
۱۔ قرآن کریم کی تلاوت کرو وہ روزِ قیامت اپنے رفیقوں کی شفاعت کرے گا۔
۲۔ جس شخص نے قرآن کریم کا ایک حرف پڑھا اس کے لیے نیکی ہے دس نیکیوں کے برابر ۔
۳۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس شخص کو قرآن اور میرا ذکر ایسا مشغول کرے کہ وہ مجھ سے مانگنے اور سوال کرنے کی فرصت بھی نہ پائے میں اس کو مانگنے والوں سے زیادہ دیتا ہوں۔
۴۔ جس گھر میں قرآن پڑھا جاتا ہے وہ اہل آسمان کے لیے ایسی زینت ہوتا ہے جیسے ستارے زمین ولوں کے لیے۔
۵۔ اپنے مکانوں کو نماز اور قرآن کریم کی تلاوت سے منورکرو۔
۶۔ میر ی امت کی بہترین عبادت قرآن کریم کی تلاوت ہے۔
۷۔ تم میں بہتر وہ شخص ہے جس نے قرآن سیکھا اور سکھایا۔
سوال نمبر 14: تلاوت میں خاص کر کس بات کا دھیان رکھنا چاہیے؟
جواب :قرآن کریم کو سمجھ کر پڑھنا، اس کے معنی پر نظر رکھنا مقصودِ اعظم ہے۔ اس سے قلب میںنورانیت حاصل ہوتی ہے اور معنی پر نظر رکھنے سے مراد یہ ہے کہ جو پڑھتا ہے اس کے معنی سمجھے اور امر و نہی پر غور کرے اور دل میں اس کے ماننے اور اطاعت کرنیاعتماد جمائے اور گزرے ہوئے زمانہ میں جو تقصیر ہوئی اس سے استغفار کرے اور جب آیت رحمت آئے تو خوش ہو اور اللہ تعالیٰ سے رحمت طلب کرے اور جب آیت عذاب آئے تو ڈرے اور اس سے پناہ مانگے۔ دل حاضر کرے اور خشوع کے ساتھ پڑھے یہاں تک کہ رقت آئے اور آنکھوں سے آنسو جاری ہوں۔
قرات کے درمیان ہنسنا، بے فائدہ عبث حرکات کرنا اور لہو کی طرف نظر کرناا ور قرآن کریم کی تلاوت کو کسی سے بات کرنے کے لیے قطع کرنا مکروہ ہے اور قرآن کریم کو ذریعہ معاش بنانا ممنوع ہے۔
سوال نمبر 15: چلتے پھرتے اور لیٹ کی تلاوت جائز ہے یا نہیں؟
جواب :قرآن کریم زبانی لیٹ کر پڑھنے میںحرج نہیں جب کہ پاؤں سمٹے ہوں اور منہ کھلا ہو، یوں چلنے اور کام کرنے کی حالت میں بھی تلاوت جائز ہے جب کہ دل نہ بٹے، ورنہ مکروہ ہے۔