سوال نمبر :1چاند دیکھنے کے لیے حکم شرعی کیا ہے؟جواب : پانچ مہینوں کا چاند دیکھنا واجب کفایہ ہے کہ بستی میں ایک دو آدمیوں نے دیکھ لیا تو سب بری الذمہ ہوگئے۔ اور کسی نے نہ دیکھا تو سب گناہگار ہوئے۔ وہ پانچ مہینے یہ ہیں : شعبان، رمضان، شوال، ذی قعدہ، ذی الحجہ۔ شعبان کا اس لیے کہ اگر رمضان کا چاند دیکھتے وقت ابریا غبار ہو تو لوگ تیس دن پورے کرکے رمضان شروع کر دیں۔ رمضان کا روزہ رکھنے کے لیے شوال کا روزہ ختم کرنے کے لیے، ذی قعد کا ذی الحجہ کے لیے ( کہ وہ حج کا خاص مہینہ ہے ) اور ذی الحجہ کا بقر عید کے لیے (فتاویٰ رضویہ)۔ سوال نمبر :2روزہ رمضان کب سے رکھنا شروع کریں؟جواب : شعبان کی انتیس کو شام کے وقت چاند دیکھیں۔ دکھائی دے تو کل روزہ رکھیں ورنہ شعبان کے تیس دن پورے کرکے رمضان شروع کریں۔ اور روزہ رکھیں۔ حدیث شریف میں ہے ’’چاند دیکھ کر روزہ رکھنا شروع کرو اور چاند دیکھ کر افطار کرو (یعنی روزے پورے کرکے عید الفطر مناؤ) اور اگر ابر ہو تو شعبان کی گنتی تیس پوری کر لو۔ (بخاری مسلم)سوال نمبر :3چاند کے ہونے نہ ہونے میں علم ہیت کا اعتبار ہے یا نہیں؟جواب : جو شخص علم ہیت جانتا ہے اس کا اپنے علم ہیت (نجوم وغیرہ) کے ذریعہ سے کہہ دینا کہ آج چاند ہوا یا نہیں یہ کب ہوگا۔ یہ کوئی چیز نہیں ۔ اگر چہ وہ عادل ، دیندار، قابل اعتماد ہو اگر چہ کئی شخص ایسا کہتے ہوں ۔ کہ شروع میں چاند دیکھنے یا گواہی سے ثبوت کا اعتبار ہے کسی اور چیز پر نہیں۔ (عالمگیری وغیرہ)
مثلاً وہ ۲۹ شعبان کو کہیں آج ضرور رؤیت ہوگی۔ کل یکم رمضان ہے۔ شام کو ابر ہوگیا۔ رؤیت کی خبر معتبر نہ آئی ہم ہر گز رمضان قرار نہ دیں گے۔ بلکہ وہی یوم الشک ٹھہرے گا۔ یا وہ کہیں آج رؤیت نہیں ہوسکتی کل یقیناً ۳۰ شعبان ہے۔پھر آج ہی رؤیت پر معتبر گواہی گزری۔ بات وہی کہ ہمیں تو حکم شرع پر عمل فرض ہے۔
سوال نمبر4:رمضان کے ثبوت کا شرعی طریقہ کیا ہے؟جواب : ابرا ور غبار میں رمضان کا ثبوت ایک مسلمان عاقل بالغ دیندار عادل یا مستور کی گواہی سے ہو جاتا ہے۔ خواہ وہ مرد ہو یا عورت اور ابر میں رمضان کے چاند کی گواہی میں یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ میں گواہی دیتا ہوں (جبکہ ہر گواہی میں یہ کہنا ضروری ہے ) صرف اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ میں نے اپنی آنکھ سے اس رمضان کا چاند آج یا کل فلاں دن دیکھا ہے۔ (مختار ، عالمگیری)سوال نمبر :5:عادل و مستور کے کیا معنی ہیں؟جواب : عاد ل ہونے کے معنی یہ ہیں کہ کم سے کم متقی ہو یعنی کبیرہ گناہوں سے بچتا ہو اور صغیرہ پر اصرار نہ کرتا ہو۔ اور ایسا کام نہ کرتا ہو جو مروت کے خلاف ہے۔ مثلاً بازار میں کھانا یا شارع عام پر پیشاب کرنا یا بازار و عام گزر گاہ پر صرف بنیان و تہہ بند میں پھرنا ۔ (در مختار، ردالمحتار وغیرہ)
اور مستور وہ مسلمان ہے جس کا ظاہر حال شروع کے مطابق ہے مگر باطن کا حال معلوم نہیں۔ ایسے مسلمان کی گواہی رمضان المبارک کے علاوہ کسی اور جگہ مقبول نہیں۔ (درمختار)
سوال نمبر :6:فاسق کی گواہی مقبول ہے یا نہیں؟جواب : فاسق اگرچہ رمضان المبارک کے چاند کی گواہی دے اس کی گواہی قابل قبول نہیں۔ رہا یہ کہ اس کے ذمہ گواہی لازم ہے یا نہیں ۔ اگر امید ہے کہ اس کی گواہی قاضی قبول کرلے گا۔ تواسے لازم ہے کہ گواہی دے۔ (در مختار) کہ ایک ایک کرکے اگر گواہوں کی تعداد حجم غفیر (کثیر مجمع) کو پہنچ جائے تو یہ بھی ثبوت رمضان کا ذریعہ ہے۔ سوال نمبر :7:چاند دیکھ کر گواہی دینا لازم ہے یا نہیں؟جواب : اگر اس کی گواہی پر رمضان المبارک کا ثبوت موقوف ہے کہ بے (بغیر) اس کی گواہی کے کام نہ چلے گا تو جس عادل شخص نے رمضان کا چاند دیکھا۔ اس پرواجب ہے کہ اسی رات میں شہادت ادا کرے۔ یہاں تک کہ پردہ نشین خاتون کے چاند دیکھا و اس پر گواہی دینے کے لیے اسی رات جانا واجب ہے اور اس کے لیے شوہر سے اجازت لینے کی بھی ضرورت نہیں۔ (درمختار،ردالمحتار )سوال نمبر :8:گواہی دینے والے سے کرید کرید کر سوال کرنا کیسا ہے؟جواب : جس کے پاس رمضان کے چاند کی شہادت گزری اسے یہ ضروری نہیں کہ گواہ سے یہ دریافت کرے تم نے کہاں سے دیکھا اوروہ کس طرف تھا اور کتنے اونچے پر تھا وغیرہ وغیرہ (عالمگیری وغیرہ) مگر جب کہ اس کے بیان میں شہادت پیدا ہوں تو سوالات کرے۔ خصوصاً عید میں کہ لوگ خواہ مخواہ اس کا چاند دیکھ لیتے ہیں۔ (بہار شریعت)سوال نمبر :9:مطلع صاف ہو تو گواہی کا میعار کیا ہے؟جواب : اگر مطلع صاف ہو تو جب تک بہت سے لوگ شہادت نہ دیں۔ چاند کا ثبوت نہیں ہو سکتا ۔ رہا یہ کہ اس کے لیے کتنے لوگ چاہئیں۔ یہ قاضی کے متعلق ہے۔ جتنے گواہوں سے اسے گمان غالب ہو جائے حکم دے دیا جائے گا۔ (درمختار)سوال نمبر :10:مطلع صاف ہو نے کی حالت میں ایک گواہی کب معتبر ہے؟جواب : ایسی حالت میں جب کہ مطلع صاف تھا ایک شخص بیرون شہر یا بلند جگہ سے چاند دیکھنا بیان کرتا ہے۔ اور اس کا ظاہر حال مطابق شرع ہے تو اس کا قول بھی رمضان کے چاند میں قبول کر لیا جائے گا۔ (مختار وغیرہ)سوال نمبر :11:گاؤں میں چاند کی گواہی کس کے روبرو دی جائے؟جواب :اگر کسی نے گاؤں میں چاند دیکھا اور وہاں کوئی ایسا نہیں جس کے پاس گواہی دے تو گاؤں والوں کو جمع کرکے شہادت ادا کرے ۔ اب اگر یہ عادل ہے یعنی متقی دین دار، خدا ترس اور حق پرست ہے۔ گناہوں سے دور بھاگتا ہے تو ان لوگوں پرروزہ رکھنا لازم ہے۔ سوال نمبر :12:اگر لوگ کسی جگہ سے آکر چاند ہونے کی خبر دیں تو معتبر ہے یا نہیں؟جواب : اگر کہیں سے کچھ لوگ آکر یہ کہیں کہ فلاں جگہ چاند ہو گیا ہے۔ بلکہ یہ کہیں کہ ہم گواہی دیتے ہیں۔ کہ فلاں جگہ چاند ہو بلکہ یہ شہادت دیں کہ فلاں فلاں نے چاند دیکھا بلکہ یہ شہادت دیں کہ فلاں جگہ کے قاضی نے روزہ رکھنے یا روزہ چھوڑ دینے اور عید منانے کے لیے لوگوں سے یہ کہا یہ سب طریقے ناکافی ہیں۔ (درمختار، ردالمحتار )
صاف بات یہ ہے کہ اگر خود اپنا چاند دیکھنا بیان کریں تو اگر گواہی معتبر ہے ورنہ نہیں۔
سوال نمبر :13:تنہا بادشاہ اسلام یا قاضی نے چاند دیکھا تو کیا حکم ہے؟جواب : تنہا بادشاہ اسلام یا قاضی یا مفتی دین نے چاند دیکھا تو اسے اختیار ہے خواہ خود ہی روزہ رکھنے کا حکم دے یا کسی اور کو شہادت لینے کے لیے مقرر کرے۔ اور اس کے پاس شہادت ادا کرے لیکن اگر تنہا ان میں سے کسی نے عید کا چاند دیکھا تو انہیں عید کرنا یا عید کا حکم دینا نہیں۔ (عالمگیری در مختاری وغیرہ)سوال نمبر :14:گاؤں میں دوشخصوں نے عید کا چاند دیکھا تو ان کے لیے کیا حکم ہے؟جواب : گاؤں میں اگر دو شخصوں نے عید کا چاند دیکھا اور مطلع تھا ابر آلود یعنی ابرو غبار کے باعث ناصاف ۔ اور وہاں کوئی ایسا نہیں جس کے پاس یہ شہادت دیں تو گاؤں والوں کو جمع کرکے ان سے یہ کہیں کہ ہم گواہی دیتے ہیں۔ کہ ہم نے عید کا چاند دیکھا ہے۔ اگر یہ عادل ہوں تو لوگ عید کرلیں ورنہ نہیں۔ (عالمگیری)سوال سوال نمبر :15رمضان کے علاوہ اور مہینوں میں کتنے گواہ درکار ہیں؟جواب : مطلع اگر صاف نہ ہو یعنی ابرو غبار آلودہ ہو تو علاوہ رمضان کے شوال و ذی الحجہ بلکہ تمام مہینوں کے لیے دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتیں گواہی دیں۔ اور سب عادل ہوں اور آزاد ہوں اور ان میں کسی پر تہمت زنا کی حد جاری نہ کی گئی ہو اگرچہ تو یہ کر چکا ہو تو ان کی گواہی رؤیت ہلال (یعنی چاند دیکھنے) کے حق میں قبول کر لی جائے گی )۔ اور یہ بھی شرط ہے کہ گواہ گواہی دیتے وقت یہ لفظ کہے ’’ میں گواہی دیتا ہوں‘‘ (عامۂ کتب)سوال نمبر :16دن میں چاند دکھائی دیا تو وہ کس رات کا مانا جائے گا؟جواب : دن میں ہلال دکھائی دیا ، زوال سے پہلے یا بعد از زوال، بہر حال وہ آئندہ رات کا قرار دیاجائے گا یعنی جو رات آئے گی۔ اس سے مہینہ شروع ہوگا تو اگر تیسویں رمضان کے دن میں چاند دیکھا گیا تو یہ دن رمضان ہی کا ہے شوال کا نہیں اور روزہ پورا کرنا فرض ہے۔ اور اگر شعبان کی تیسویں تاریخ کے دن میں دیکھا تو دن شعبان کا ہے رمضان کا نہیں۔ لہٰذا آج کا روزہ فرض نہیں ہے (درمختار، ردالمحتار)سوال نمبر :17اگر انتیس شعبان کو چاند نظر نہ آئے تو تیسویں تاریخ کو روزہ رکھنا جائز ہے یا نہیں؟جواب : اگر ۲۹ شعبان کو مطلع صاف ہو اور چاند نظر نہ آئے تو نہ خواص روزہ رکھیں نہ عوام (فتاویٰ رضویہ) اور اگر مطلع پر ابر وغبار ہو تو مفتی کو چاہیے کہ عوام کو ضحوئہ کبریٰ یعنی نصف النہار شرعی تک انتظار کا حکم دے۔ کہ اس وقت تک نہ کچھ کھائیں پئیں۔ نہ روزے کی نیت کریں۔ بلانیت روزہ ، مثل روزہ رہیں۔ اس بیچ میں اگر ثبوت شرعی سے روایت ثابت ہو جائے تو سب روزے کی نیت کر لیں۔ روزئہ رمضان ہو جائے گا کہ ادائے رمضان کے لیے نیت کا وقت ضحوئہ کبریٰ تک ہے۔ اور اگر یہ وقت گزر جائے کہیں سے ثبوت نہ آئے تو مفتی عوام کو حکم دے کہ کھائیں پئیں۔ اور مسئلہ شرعی سے واقفیت رکھنے والے کہ یوم الشک میں اس طرح روزہ رکھا جاتا ہے تو وہ روز ے کی نیت کر لیں۔ (درمختار، فتاویٰ رضویہ وغیرہ)سوال نمبر :18:ایک شخص کسی خاص دن روزہ رکھنے کا عادی ہو اور وہ دن یوم الشک یعنی شعبان کی تیسویں کو پڑے تو اس کے لیے کیا حکم ہے؟جواب : جو شخص کسی خاص دن کے روزے کا عاد ہو اور وہ دن اس تاریخ کو آن پڑے تو وہ اپنے اسی نفلی روزے کی نیت کر سکتا ہے بلکہ اسے اس دن روزہ رکھنا افضل ہے۔ مثلاً ایک شخص ہر پیر یا جمعرات کا روزہ رکھا کرتا ہے اور تیسویں اسی دن پڑی تو وہ روزہ نہ چھوڑے اور اس مبارک دن کے روزے کا ثواب ہاتھ سے نہ جانے دے۔سوال نمبر :19:چاند دیکھنے کی گواہی جس کی قبول نہ ہوئی تو وہ رکھے یا نہیں؟جواب : کسی نے رمضان یا عید کا چاند دیکھا مگر اس کی گواہی کسی وجہ شرعی سے رد کر دی گئی۔ مثلاً فاسق ہے تو اسے حکم ہے کہ روزہ رکھے اگرچہ اپنے آپ اس نے عید کا چاند دیکھ لیا ہے ۔ اور اس صورت میں اگر رمضان کا چاند تھا اورا س نے اپنے حسابوں تیس روزے پورے کر لیے مگر عید کے چاند کے وقت پھر ابر و غبار ہے اور رؤیت ثابت نہ ہوئی تو اسے بھی ایک دن اور روزہ رکھنے کا حکم ہے۔ (عالمگیری ، درمختار) تاکہ مسلمانوں کے ساتھ موافقت کا اجر اس کے نامہ اعمال میں درج ہو اور یہ عام اسلامی برادری سے الگ تھلگ نہ رہنے پائے کہ یہ بڑی محرومی کی بات ہے۔ سوال نمبر :20:فاسق نے چاند دیکھ کر روزہ رکھا پھر توڑ دیا تو اس کے لیے کیا حکم ہے؟جواب :اس کی دو صورتیں ہیں اور ہر صورت کا حکم علےٰحدہ ہے:
(۱) اگر اس نے چاند دیکھ کر روزہ رکھا پھر توڑ دیا۔ یا قاضی کے یہاں گواہی بھی دی تھی لیکن قاضی نے اس کی گواہی پر روزہ رکھنے کا عوام الناس کو حکم نہیں دیا تھا کہ اس نے روزہ توڑ دیا تو صرف اس روزے کی قضا دے۔ کفارہ اس پر لازم نہیں۔
(۲) اور اگر چاند دیکھ کر اس نے روزاہ رکھا اور قاضی نے اس کی گواہی بھی قبول کر لی ۔ تواس کے بعد اس نے روزہ توڑ دیا تو کفارہ بھی لازم ہے اگرچہ یہ فاسق ہو ( درمختار) کہ اس نے روزہ رمضان توڑا۔
سوال نمبر :21:ایک جگہ چاند کا ثبوت ، دوسری جگہ کے لیے معتبر ہے یا نہیں؟جواب :ایک جگہ چاند ہو تو وہ صرف وہیں کے لیے نہیںبلکہ تمام جہان کے لیے ہے مگر دوسری جگہ کے لیے اس کا حکم اس وقت ہے کہ ان کے نزدیک اس دن تاریخ میں چاند ہونا شرعی ثبوت سے ثابت ہو جائے۔ سوال نمبر :22:دوسری جگہ کے لیے چاند ہونے کے شرعی ثبوت کا کیا طریقہ ہے؟جواب :رؤیت ہلال کے ثبوت کے لیے شرع میں سات طریقے ہیں:
(۱) خود شہادت رؤیت یعنی چاند دیکھنے والوں کی گواہی۔
(۲) شہادت علی الشہادۃ یعنی گواہوں نے چاند خود نہ دیکھا بلکہ دیکھنے والوں نے ان کے سامنے گواہی دی اور اپنی گواہی پر انہیں گواہ کیا۔ انہوں نے اس گواہی کی گواہی دی یہ وہاں ہے کہ گواہان اصل، حاضری سے معذور ہوں۔
(۳) شہادت علی القضاء یعنی دوسرے کسی اسلامی شہر میں حاکم اسلام کے یہاں رؤیت ہلال پر شہادتیں گزریں اور اس نے ثبوت ہلال کا حکم دیا اور دو عادل گواہوں نے جو اس گواہی کے وقت موجود تھے۔انہوں دوسرے مقام پر اس قاضی اسلام کے روبرو گواہی گزرنے اور قاضی کے حکم پر گواہی دی۔
(۴) کتاب القاضی الی القاضی یعنی قاضی شرع جسے سلطان اسلام نے مقدمات کا اسلامی فیصلہ کرنے کے لیے مقرر کیا ہو وہ دوسرے شہر کے قاضی کو گواہیاں گزرنے کی، شرعی طریقے پر اطلاع دے۔
(۵) استفاضہ یعنی کسی اسلامی شہر سے متعد جماعتیں آئیں اور سب یک زبان اپنے علم سے خبرد یں کہ وہاں فلاں دن ، رؤیت ہلال کی بنا پر روزہ ہوا یا عید کی گئی۔
(۶) اکمال مدت یعنی ایک مہینے کے جب تیس دن کامل ہو جائیں تو دوسرے ماہ کا ہلال آپ ہی ثابت ہو جائے گا کہ مہینہ تیس سے زائد کا نہ ہوتا یقینی ہے۔
(۷) اسلامی شہر میں حاکم شرع کے حکم سے انتیس کی شام کو مثلاً توپیں داغی گئیں یا فائر ہوئے تو خاص اس شہروالوں یا اس شہر کے گردا گرد دیہات والوں کے واسطے توپوں کی آوازیں سننا بھی ثبوت ہلال کے ذریعوں میں سے ایک ذریعہ ہے۔
لیکن (۲)سے (۵) نمبر تک چار طریقوں میں بڑی تفصیلات ہیں، جو فقہ کی بڑی کتابوں میں مذکورہ ہیں۔ الغرض حکم اللہ و رسول کے لیے اور حکم شرعی قاعدئہ شرعیہ ہی کے طور پر ثابت ہو سکتا ہے۔ اس کے مقابل تمام قیاسات حسابات اور قرینے جو کہ عوام میں مشہور ہیں شرعاً باطل ہیں اور نا قابل اعتبار ۔ (فتاویٰ رضویہ)
سوال نمبر :23:تار اور ٹیلیفون سے رؤیت ہلال ثابت ہو سکتی ہے یا نہیں؟جواب :تار یا ٹیلیفون سے رؤیت ہلا ل ثابت نہیں ہو سکتی۔ نہ بازاری افواہ اوجنتریوں یا اخبارون میں چھپا ہونا کوئی ثبوت ہے۔ آج کل عموماً دیکھا جاتا ہے کہ انتیس رمضان کو بکثرت ایک جگہ سے دوسری جگہ تار بھیجے جاتے ہیں کہ چاند ہوا یا نہیں۔ اگر کہیں سے تار آگیا کہ ہاں یہاں چاند ہو گیا ہے۔ بس لو عید آگئی ۔ یہ محض ناجائز و حرام ہے۔ اور بالخصوص تار میں تو ایسی بہت سی وجہیں ہیں جو اس کے اعتبار کو کھوتی ہیں۔ ہاں کا نہیں اور نہیں کا ہاں ہو جانا تو معمولی بات ہے اور مانا کہ بالکل صحیح پہنچا تو یہ محض ایک خبر ہے شہادت نہیں۔ فقہاء کرام نے خط کا تو اعتبار ہی نہ کیا۔ اگر چہ مکتوگب الیہ ، یعنی جس خط پہنچا، کاتب کے دستخط اور تحریر کو پہچانتا ہو اور اس پر اس کی مہر بھی ہو کہ خط ، خط کے مشابہ ہوتا ہے اور مہر ، مہر کے تو کجا تار۔
یوں ہی ٹیلیفون کرنے والا، سننے والے کے پیش نظر دوبدو، آمنے سامنے نہیں ہوتا تو امور شرعیہ میں اس کا کچھ اعتبار نہیں اگرچہ اعتبار نہیں اگرچہ آواز پہچانی جائے کہ ایک آواز دوسری آواز سے مشابہ ہوتی ہے۔ اگر وہ کوئی شہادت دے معتبر نہ ہوگی اور اگر کسی بات کا اقرار کرے تو سننے والے کو اس پر گواہی دینے کی اجازت نہیں، (بہار شریف فتاویٰ رضویہ) حیرت ہے کہ مجازی حاکموں کی کچہریوں میں تار ٹیلیفون پر گواہی معتبر نہ ہو اور امور شرعیہ میں قبول کرلی جائے۔ حمیت اسلامی اور غیرت ایمانی بھی آخر کوئی چیز ہے۔
سوال نمبر :24:عوام الناس میں چاند کے بارے میں کچھ قاعدے مشہور ہیں شرعاً ان کے بارے میں کیا حکم ہے؟جواب :علم حساب کے ماہرین کی باتیں جو عوام میں پھیل گئی ہیں یا تحریر میں آچکی ہیں۔ رؤیت ہلال کے بارے میں ان کا کوئی اعتبار نہیں۔ مثلاً چودھویں کا چاند سورج ڈوبنے سے پہلے نکلتا ہے اور پندرھوں کا بیٹھ کر۔ یہ دونوں باتیں رؤیت کے ثبوت میں نامعتبر ہیں یا کہتے ہیں کہ ہمیشہ رجب کی چوتھی ، رمضان کی پہلی ہوتی ہے۔ یہ غلط ہے ۔ یوں ہی رمضان کی پہلی ذی الحجہ کی دسویں ہونا ضروری نہیں۔ یا تجربہ میں آیا ہے کہ اکثر اگلے رمضان کی پانچویں ، اس رمضان کی پہلی ہوتی ہے ۔ لیکن شرع میں اس پر اعتماد نہیں کہ یہ صرف ایک تجربہ ہے۔ حکم شرعی نہیں جس پر احکام شرعیہ کی بنا ہو سکے۔ یوں ہی تجربہ ہے کہ بر ا بر چار مہینے سے زیادہ ۲۹ کے نہیں ہوتے ۔ لیکن رؤیت کا مداراس پر بھی نہیں، بہت لوگ چاند اونچا دیکھ کر بھی ایسی ہی انٹکلیں دوڑاتے ہیں ۔ بعض کہتے ہیں اگر ۲۹ کا ہوتا تو اتنانہ ٹھہرتا۔ یہ سب بھی ویسے ہی اوہام ہیں۔ جن پر شروع میں التفات نہیں۔ اس قسم کے حسابات کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یک لخت ساقط کر دیا۔ صاف ارشاد فرماتے ہیں ہم امی امت ہیں نہ لکھیں نہ حساب کریں۔ دونوں انگلیاں تین بار اٹھا کر فرمایا مہینہ یوں اور یوں اور یوں ہوتا ہے تیسری دفعہ میں انگوٹھا بند فرما لیا یعنی انتیس اور مہینہیوں اوریوں یوں ہوتا ہے۔ ہربار سب انگلیاں کھلی رکھیں یعنی تیس۔
ہم بحمداللہ اپنے نبی امی صلی اللہ علیہ وسلم کے امی امت ہیں ہمیں کسی کے حساب و کتاب سے کیا کام، جب تک رؤیت ثابت نہ وہوگی نہ کسی کا حساب سنیں نہ تحریر مانیں نہ قرینے دیکھیں نہ اندازہ جانیں۔ (فتاویٰ رضویہ)
سوال نمبر :25:چاند دیکھ کر کیا کرنا چاہیے؟
جواب :ہلال دیکھ کر اس کی طرف اشارہ نہ کریں کہ مکروہ ہے اگرچہ دوسرے کے بتانے کے لیے ہو ۔ نہ ہلال دیک کر منہ پھریں اور یہ جاہلوں میں مشہور ہے کہ فلاں چاند، تلوار پر دیکھے، فلا ں آئینے پر۔ یہ سب جہالت و حماقت ہے۔ بلکہ حدیث میں جو دعائیں فرمائیں، وہ پڑھنی کافی ہیں۔ مثلاً یہ دعا پڑھیں:
اشھدک یا ہلال ان ربی و ربک اللہ ط اللھم الھہ علینا بالا من والا یمان والسلامتہ والاسلام والتو فیق لما تحب و ترضی۔(فتاویٰ رضویہ وغیرہ)
اے چاند میں تجھے گواہ بناتا ہوں کہ میرا اور تیرا رب ، اللہ ہے۔ الہٰی اس چاند کو ہم پر امن و ایمان اور سلامتی واسلام کے ساتھ چمکا اور اپنی محبوب و پسندیدہ چیزوں کی توفیق کے ساتھ (اس کی روشنی ہم پر باقی رکھ)۔