سوال نمبر :1:روزہ توڑنے کا کفارہ کیا ہے؟
جواب :روزہ توڑنے کا کفارہ یہ ہے کہ ممکن ہو تو ایک رقبہ یعنی باندی یا غلام آزاد کرے اور یہ نہ کر سکے مثلاً اس کے پاس نہ لونڈی غلام ہے۔ نہ اتنا مال کہ خرید یا مال تو ہے مگر رقبہ میسر نہیں جیسا آج کل یہاں پاک و ہند میں تو پے درپے ساٹھ روزے رکھے۔ یہ بھی نہ کر سکے تو ساٹھ مساکین کو بھر بھر پیٹ دونوں وقت کھانا کھلائے۔ (عامہ ء کتب)
سوال نمبر :2:کفارہ کے روزوں میں سے اگر بیچ میں کوئی روزہ چھوٹ جائے تو پہلے والے روزے شمار میں آئیں گے یا نہیں؟
جواب :روزے رکھنے کی صورت میں اگر درمیان کا ایک روزہ بھی چھوٹ گیا تو نئے سرے سے ساٹھ روزے رکھے۔ پہلے کے روزے شمار میں نہ آئیں گے۔ اگرچہ انسٹھ رکھا چکا تھا اگر چہ بیماری وغیرہ کسی عذر کے سبب چھوٹا ہوا۔ (عامہ ء کتب)
سوال نمبر :3:حیض درمیان میں آجائے تو کفارہ کے روزوں کا کیا حکم ہے؟
جواب :عورت کو کفارہ کے روزوں کے درمیان اگر حیض آجائے تو حیض کی وجہ سے جتنے ناغے ہوئے یہ ناغے شمار نہیں کیے جائیں گے۔ یعنی حیض سے پہلے کے روزے اور بعد والے روزے دونوں مل کر ساٹھ ہو جانے سے کفارہ ادا ہو جائے گا۔ (کتب کثیرہ) مگر لازم ہے کہ حیض سے فارغ ہوتے ہی روزہ شروع کر دے۔
سوال نمبر :4:کفارہ کے دوران عورت کے بچہ پیدا ہو تو اب کیا حکم ہے؟
جواب :اگر اثنائے کفارہ میں عورت کے بچہ پیدا ہو تو اسے حکم ہے کہ وہ سرے سے روزے رکھے۔ یوں ہی اگر عورت نے رمضان کا روزہ توڑ دیا اور کفارہ میں روزے رکھ رہی ہے کہ حیض آگیا اور اس حیض کے بعد آئسہ ہو گئی یعنی اب ایسی عمر ہوگئی کہ حیض نہ آئے گا تو سرے سے روزے رکھنے کا حکم دیا جائے گا کہ اب وہ پے درپے دوہ مہنے کے روزے رکھ سکتی ہے۔ (درمختار، روالمحتار)
سوال نمبر :5:کفارہ کے روزوں میں کوئی اور شرط ہے یا نہیں؟
جواب :ہاں روزوں سے کفارہ ادا کرنے میں یہ شرط بھی ہے کہ نہ اس مذت کے اندر ماہ رمضان ہو نہ عید الفطر نہ عید الاضحٰی نہ ایام تشریق۔ ہاں اگر مسافر سے تو ماہ رمضان میں کفارہ کی نیت سے روزے رکھ سکتاہے۔ مگر ایام منہیہ میں (روزے رکھنے سے جن دنوں میں ممانعت ہے ) اسے بھی اجازت نہیں (جوہرہ ، درمختار وغیرہ)
سوال نمبر :6:کفارہ کے روزوں میں (۶) کی گنتی ضروری ہے یا نہیں؟
جواب :روزے اگر چاند کی پہلی تاریخ سے رکھے تو دوسرے مہینے کے ختم پر کفارہ ادا ہو گیا اگرچہ دونوں مہینے ۲۹ دن کے ہوں کہ دو ماہ کامل ہوگئے اور اگر پہلی تاریخ سے نہ رکھے ہوں تو ساٹھ پورے رکھنے ہوں گے۔ اور اگر پندرہ روزے رکھنے کے بعد چاند ہوا پھر اس مہینے کے روزے رکھ لیے اور یہ ۲۹ دن ہوئے۔ جب بھی کفارہ ادا ہو جائے گا۔ (درمختار، ردالمحتار)
سوال نمبر :7:کفارہ کا روزہ توڑ دیا تو کیا حکم ہے؟
جواب :کفارہ کا روزہ توڑ دیا ۔ خواہ سفر وغیرہ کسی عذر سے توڑا۔ یا بغیر عذر تو سرے سے روزہ رکھے ۔(درمختار )
سوال نمبر :8:اگر کسی نے رمضان کے دو روزے توڑ دیے تو کیا حکم ہے؟
جواب :اگر دو روزے توڑے اور دونوں رمضان کے ہوں تو دونوں کے لیے دو کفارے دے اگرچہ پہلے رمضان کا کفارہ نہ ادا کیا ہو۔ اور اگر دونوں ایک ہی رمضان کے ہوں اور پہلے کا کفارہ ادا نہ کیا ہو تو ایک ہی کفارہ دونوں کے لیے کافی ہے۔ (جو ہرہ نیرہ) اور پہلے کا کفارہ ادا کر چکا تھا کہ دوسرا توڑ دیا تو اب اس کا کفارہ پھر ادا کرے۔
سوال نمبر :9:جو شخص روزے نہ رکھ سکے و ہ کفارہ کس طرح ادا کرے؟
جواب :روزے رکھنے پر بھی اگر قدرت نہ ہو مثلاً بیمار ہے اور اچھے ہونے کی امید نہیں یا بہت بوڑھا ہے تو حکم ہے کہ وہ ساٹھ مسکینوں کو دونوں وقت پیٹ بھر کر کھانا کھلائے۔ (درمختار وغیرہ)
سوال نمبر :10:اگر ساٹھ مسکینوں کو ایک دم سے نہ کھلائے تو حکم کیا ہے؟
جواب :کفارہ میں کھانا کھلانے والے کو یہ اختیار ہے کہ ایک دم سے ساٹھ مسکینوں کو کھلا دے یا متفرق طور پر ۔ مگر شرط یہ ہے کہ اس اثناء میںر وزوں پر قدرت حاصل نہ ہو۔ ورنہ کھلانا صدقہ نفل ہوگا۔ اور کفارے میں روزے رکھنے ہوں گے۔ (عالمگیری )
سوال نمبر :11:اگر ایک وقت کے مساکین دوسرے وقت نہ ہوں تو کیا حکم ہے؟
جواب :اگر ایک وقت ساٹھ مساکین کو کھانا کھلایا اور دوسرے وقت ان کے سوا دوسرے ساٹھ مساکین کو کھلایا تو کفارہ ادا نہ ہوا۔ بلکہ ضروری ہے کہ پہلوں یا پچھلوں کو پھر ایک وقت کھلائے۔ (درمختار )
سوال نمبر :12:کفارہ کا کھانا کھانے والے مساکین کا بالغ ہونا شرط ہے یا نہیں؟
جواب :ہاں یہ بات شرط ہے کہ جن مسکینوں کو کھانا کھلایا ہو ان میں کوئی نابالغ نہ ہو۔ ہاں اگر کوئی ان میں مراہق (قریب البلوغ، تقریباً 15سال نہ کہ 15سال کامل کا) ہو تو وہ شمار میں آسکتاہے۔ اور اگر ان مساکین میں نابالغ بھی تھے۔ اور جوان آدمی کی پوری خوراک کا انہیں مالک کر دیا تو کافی ہے۔ (ردالمحتاروغیرہ ) عربی مدارس اور یتیم خانے کے طلبہ کو کھلائیں تب بھی یہ لحاظ ضروری ہے۔
سوال نمبر :13:جو لوگ کھانا کھا چکے ہیں انہیں کفارہ کا کھلایا جائے تو کیا حکم ہے؟
جواب :کھلانے میں پیٹ بھر کر کھلانا شرط ہے۔ اگر چہ تھوڑے ہی کھانے میں آسودہ ہو جائیں اور اگر پہلے ہی سے کوئی آسودہ تھا تو اس کا کھانا کافی نہیں ۔(درمختار،ردالمحتارو غیرہ)
سوال نمبر :14:کفارہ کے کھانے میں کیا کھانا دیا جائے؟
جواب :بہتر یہ ہے کہ گیہوں کی روٹی اور سالن کھلائے۔ اور اس سے بھی اور اچھا ہو تو اور بہتر ۔ ہاں جو کی روٹی ہو تو سالن ضروری ہے۔ (درمختار،ردالمحتاروغیرہ)
سوال نمبر :15:ایک ہی مسکین کو کھانا کھلایا جائے تو کیا حکم ہے؟
جواب :اگر ایک ہی مسکین کو ساٹھ دن تک دونوں وقت کھانا کھلایا یا ہر روز بقدر صدقہ فطر اسے دے دیا جب بھی ادا ہو گیا۔ اور اگر ایک ہی دن میں ایک مسکین کو سب دے دیا تو صرف اسی ایک دن کا ادا ہوا۔ (عالمگیری)
سوال نمبر :16:ساٹھ مسکین کو دو وقت کی بجائے ۔ ایک سو بیس مساکین کو ایک وقت کھلایا تو کفارہ ادا ہوا یا نہیں؟
جواب :ایک سو بیس مساکین کو ایک وقت کھانا کھلا دیا تو کفارہ ادا نہ ہوا بلکہ ضروری ہے کہ ان میں سے ساٹھ کو پھر ایک وقت کھلائے۔ خواہ اسی دن یا کسی دوسرے دن اور اگر وہ نہ ملیں تو دوسرے ساٹھ مساکین کو دونوں وقت کھلائے۔ (درمختار)
سوال نمبر :17:کھلانے کی بجائے اگر غلہ وغیرہ دیا جائے تو فی کس کتنا ہونا چاہیے؟
جواب :ہاں بعض اوقات مساکین کو دونوں وقت کھلانا بڑا مشکل ہو جاتا ہے۔ یا اور ایسی صورتیں در پیش آجاتی ہیں۔ اس لیے یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ہر مسکین کو بقدر صدقہ فطر یعنی نصف صاع گندم یا ایک صاع جو یا ان کی قیمت کا مالک کر دیا جائے مگر اباحت کافی نہیں۔ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ صبح کو کھلا دے اور شام کو قیمت دے دے ۔ یا شام کو کھلادے اور صبح کے کھانے کی قیمت دے دے۔ یا دو دن صبح کو یا دو دن شام کو کھلائے۔ یا تیس کو کھلائے اور تیس کو دے دے۔ غرض یہ کہ ساٹھ کی تعداد جس طرح چاہے پوری کرے۔ اس کا اختیار ہے۔ یا پاؤ صاح گیہوں اور نصف صاع جو ایک مساکین کو دے دے یا کچھ گیہوں یا جو دے، باقی کی قیمت، ہر طرح اختیار ہے۔ (درمختار،ردالمحتار)
سوال نمبر :18:کفارہ صوم میں امیر و غریب یکساں ہیں یا ان میں کوئی فرق ہے؟
جواب :آزاد غلام، مر دو عورت، بادشاہ و فقیر سب پر روزہ توڑنے سے کفارہ لازم ہے۔ اس حکم میں سب یکساں ہیں۔ (ردالمحتار )
سوال نمبر :19:کفارہ میں گند م و جو کے علاوہ اور کوئی غلہ دیں تو کس حساب سے دیں؟
جواب :گند م و جو کے سوا، چاول دھا ن وغیرہ کوئی غلہ، کسی قسم کا دیا جائے۔ اس میں وزن کا کچھ لحاظ نہ ہوگا۔ بلکہ اسی ایک صاع جو نیم صاع گندم کی قیمت ملحوظ رہے گی۔ اگر اس کی قیمت کے قدر ہے تو کافی ہے ورنہ ناکافی۔ مثلاً نصف صاح گیہوں کی قیمت دو روپیہ ہے تو روپیہ سیروالے چاول کافی ہوں گے۔ وعلیٰ ہذالقیاس اور قیمت میں نرخ بازار آج کا معتبر نہ ہوگا یعنی جس دن ادا کر رہے ہیں بلکہ اس دن کا معتبر ہوگا جس دن کفارہ واجب ہوا۔ (فتاویٰ رضویہ وغیرہ)
سوال نمبر :20:کفارہ صیام کا مصرف کیا ہے؟
جواب :روزوں کے کفارہ میں کھانا کھلائیں یا بقدر صدقہ فطر گیہوں جو یا ان کی قیمت دیں۔ یہ لحاظ ضروری ہے کہ اس کے مستحق وہی لوگ ہیں جو زکوٰۃ یا صدقہ فطر کے مستحق ہیں۔ یعنی کفارہ صوم کسی سید بلکہ کسی ہاشمی کو بھی نہیں دے سکتے۔ اپنی اولاد جیسے بیٹا ، بیٹی ، پوتا ، پوتی اور نوا سا، نواسی کو نہیں سکتے۔ اگرچہ یہ بالکل نادار اور بے سہارا ہوں ۔ یوں ہی کفارہ دینے والا جس کی اولا د میں ہے جیسے ماں، باپ، داد ا ، دادی اور نانا، نانی انہیں نہیں دے سکتا۔ اور اپنے اقرباء یعنی قریبی رشتہ داروں مثلاً بہن بھائی، چچا ، ماموں ، خالہ ، پھوپھی، بھتیجا، بھتیجی، بھانجہ ، بھانجی ان کو دے سکتے ہیں۔ جبکہ اور کوئی مانع (رکاوٹ) نہ ہو۔ یوں ہی نوکروں کو دے سکتے ہیں۔ جبکہ اجرت میں محسوب (شمار) نہ ہو۔ زوجین بھی ایک دوسرے کو نہیں دے سکتے۔ (فتاویٰ رضویہ وغیرہ)