سوال نمبر 1:نفلی روزے کسے کہتے ہیں؟ جواب : فرض واجب کے علاوہ اور جتنے روزے ہیں۔ وہ سب نفلی روزے کہلاتے ہیں۔ ان نفلی روزوں میں وہ روزے بھی شامل ہیں جنہیں مسنون یا مستحبو مندوب کہا جاتا ہے۔ اور وہ بھی داخل ہیں جنہیں شریعت کی زبان میں مکرؤہ تحریمی یا مکرؤۃ تنز یہی کہا جاتا ہے۔ سوال نمبر2:رمضان المبارک کے علاوہ کون سے نفلی روزے زیادہ فضیلت رکھتے ہیں؟ جواب : رمضان المبارک کے بعد، روزہ وغیرہ اعمال صالحہ کے لیے سب دنوں سے افضل ذی الحجہ کا پہلا عشرہ ہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ ’’اللہ عزوجل کو عشرئہ ذی الحجہ سے زیادہ کسی دن کی عبادت پسندیدہ نہیں۔ اس کے ہر دن کا روزہ ایک سال کے روزوں اور ہر شب کا قیام (نماز تہجد پڑھنا) شب قدر کے برابر ہے‘‘ خصوصاً عرفہ کا دن کہ تمام سال میں دنوں سے افضل ہے ۔ تو اس کا روزہ بھی اور دونوں کے روزوں سے افضل ۔سوال نمبر 3:عرفہ کے روز، روزہ کا ثواب کیا ہے؟ جواب :عرفہ کا روزہ صحیح حدیث سے ہزاروں روزوں کے برابر ہے۔ اور دو سال کامل کے گناہوں کی معافی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ’’ عرفہ کا روزہ ایک سال قبل اور ایک سال بعد کے گناہ مٹا دیتا ہے ‘‘ (ترمذی وغیرہ)سوال نمبر 4:عرفہ کے بعد کون سے دن کا روزہ ثواب رکھتا ہے؟ جواب :عرفہ کے بعد سب دنوں سے افضل روزہ عاشورا یعنی دسویں محرم کا روزہ ہے اور بہتر یہ ہے کہ نویں کو بھی رکھے۔ اس میں ایک سال گذشتہ کے گناہوں کی مغفرت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ’’ مجھے اللہ پر گمان ہے کہ عاشورا کا روزہ ایک سال قبل کے گناہ مٹا دتیا ہے۔ (مسلم) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشورا کا روزہ خود رکھا اور اس کے رکھنے کا حکم فرمایا۔ (بخاری و مسلم)سوال نمبر 5:حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشورا کا روزہ سب سے پہلے کہاں رکھا؟ جواب :رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ معظمہ سے ہجرت فرما کر جب مدیہ طیبہ میں تشریف لائے تو یہود کو عاشورا کے دن روزہ دار پایا۔ ارشاد فرمایا ’’ یہ کیا دن ہے کہ تم روزہ رکھتے ہو‘‘ ؟
یہودیوں نے عرض کی ’’ یہ عظمت والا دن ہے کہ اس میں موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام اور ان کی قوم کو اللہ تعالیٰ نے نجات دی اور فرعون اور اس کی قوم کو ڈبویا۔ لہٰذا مو سیٰ علیہ السلام نے بطور شکر اس دن کا روزہ رکھا تو ہم بھی روزہ رکھتے ہیں‘‘۔
حضور سید اکرم عالم اعلم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’ موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی موافقت کرنے میں بہ نسبت تمہارے ہم زیادہ حقدار اور زیادہ قریب ہیں‘‘ تو حضور ﷺنے خود بھی روزہ رکھا اور اس کا حکم بھی فرمایا ۔ ۱
عاشورا کا دن اور بہت سے فضائل والا اور بڑا مبارک دن ہے۔
۱ اس حدیث شریف سے معلوم ہوا کہ جس روز اللہ عزوجل کوئی خاص نعمت عطا فرمائے اس کی یاد گار قائم کرنا درست و محبوب ہے کہ وہ نعمت خاصہ یاد آئے گی اور اس کا شکر ادا کرنے کا سبب ہوگا۔ خود قرآن کریم نے ارشاد فرمایا ’’ واذ کرو ا ا یام اللہ ‘‘ ’’خدا نے انعام کے دنوں کو یاد کرو‘‘۔
اور ہم مسلمانوں کے لیے ولادت اقدس سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے بہتر کون سا دن ہوگا جس کی یاد گار قائم کریں کہ تمام نعمتیں انہیں کے طفیل ملیں، ملتی ہیں اور ملتی رہیں گی۔ تو یہ دن عید سے بھی بہتر و بر تر ہے کہ انہیں کے صدقہ میں تو عید ہوئی اسی وجہ سے پیر کے دن روزہ رکھنے کا سبب ارشاد فرمایا فیہ ولدت اس دن میری ولادت ہوئی۔ (بہار شریعت وغیرہ)
سوال نمبر 6:روز عاشورا کے کچھ فضائل بیان فرمائیں؟ جواب :یوم عاشورا وہ مبارک و روشن دن ہے جس میں رب العزت نے ایک جماعت انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام کو مخصوص عزت و کرامت سے نوازا اور انہیں مزید قرب و شرافت سے سرفراز فرمایا۔
یہی وہ بابرکت دن ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے
۱۔ حضرت سید نا آدم علیہ السلام کو برگزیدہ خلائق کیا۔ انہیں صفی اللہ کا لقب بخشا۔
۲۔ سیدنا ادریس علیہ السلام کو آسمان پر اٹھایا۔
۳۔ سید نا نوح علیہ السلام کے سفینہ کو کوہ جودی پر ٹھہرایا۔
۴۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو خلعت خلت پہنایا انہیں اپنا خلیل بنایا۔
۵۔ ان پر نارنمرود کو گلزار کیا۔
۶۔ سیدنا داؤد علیہ السلام کو لغزش کو معاف فرمایا۔
۷۔ سید نا ایوب علیہ السلام سے بلاؤں کو دفع کیا۔
۸۔ سید نا یونس علیہ السلام کو بطن حوت (مچھلی کے پیٹ) سے نکلا۔
۹۔ سید نا یعقوب و سیدنا یوسف علیہاالسلام کو باہم ملایا۔
۱۰۔ سید نا عیسیٰ علیہ السلام کو پیدا فرمایا اور پھر آسمان پر زندہ اٹھایا۔
۱۱۔ سید نا آدم و حوا علیہا السلام کو پیدا کیا۔
سوال نمبر 7:روز عاشورا کے لیے کچھ اعمال خیر ہوں تو وہ بھی بتا دیں؟ جواب :روز عاشورا وہ مبارک دن ہے جس کے لیے تو رات مقدس میں مذکور کہ :
۱۔ جس نے یوم عاشورا کا روزہ رکھا گو یا اس نے تمام سال روزہ رکھا۔
۲۔ جس نے آج کسی یتیم کے سر پر محبت سے ہاتھ پھیرا۔ رب عزوجل ہر بال کے بدلے جنت میں ایک درخت عالی شان اسے عطا فرمائے گا۔ جو قیمتی ملبوسات اور زیورات سے لدا ہوگا۔ اور ان کی تعداد سوائے خدا کے کسی کو معلوم نہیں۔
۳۔ جو آج کسی بھو کے بھٹکے کو سیدھی راہ پر ڈال دے ، رب عزوجل اس کے دل کو نور سے معمور فرمائے۔
۴۔ جو آج کے روز کسی فقیر پر صدقہ کرے گویا اس نے تمام فقراء پر صدقہ کیا۔
۵۔ جو آج غصہ کو ضبط کرلے (حالانکہ و ہ غصہ اتار نے پر قدرت رکھتا ہے اللہ تعالیٰ اسے ان میں لکھ دے گا جو اراضی برضائے الہٰی ہیں۔
۶۔ جو کسی مسکین کی عزت بڑھائے ، مالک و مولیٰ قبر میں اسے کرامت بخشے۔ یہی وہ دن ہے جس کے متعلق نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(۱) جو شخص آج کے دن اپنے اہل عیال پر وسعت کرے (ان پر کشادہ دلی سے خرچ کرے) تو اللہ تعالیٰ تمام سال کے لیے اسے فراخی نصیب فرمائے (بیہقی) حضرت سفیان بن عےینہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ہم نے پچاس سال اس کا تجربہ کیا اور ہر سال فراخی پائی۔
(۲) جو شخص آج کے دن غسل کرے، مرٗض الموت کے علاوہ اس سال کسی اور مرض میں مبتلا نہ ہو۔ اور جو آج کے روز سرمہ لگائے اس کی آنکھیں کبھی دکھنے نہ آئیں (یعنی اس کی چشم بصیرت ، دل کی آنکھ ہمیشہ روشن رہے)۔
(۳) جو عاشورا کی شب قیام و ذکر میں، اور اس کا دن روزے میں گزارے جب مرے گا تو اسے اپنی موت کا پتہ بھی نہ چلے گا۔ (یعنی موت کی سختی سے محفوظ رہے گا) (غنیتہ الطالبین، نزہتہ المجا لس)
سوال نمبر 8:عشرئہ محرم میں مجالس ذکر شہادت کرنا کیسا ہے؟جواب :عشر ئہ محرم یا ماہ محرم میں مجالس منعقد کرنا ااور ان میں واقعات کربلا بیان کرنا جائز ہے۔ جبکہ روایات صحیحہ بیان کی جائیں۔ ان واقعات میں صبر و تحمل اور رضا ء و تسلیم کامکمل درس ہے۔ اور پابندی احکام شریعت و اتباع سنت کا زبر دست عملی ثبوت ہے کہ دین حق کی حمایت میں اس جناب شہزادئہ گلگوں قبا شہید کر بلا رضی اللہ عنہ نے تمام اعزارو اقرباء ورفقاء اور خود آپ کو راہ خدا میں قربان کیا اور جزع فزع کا نام بھی نہ آنے دیا۔
مگر ان مجالس میںصحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کا بھی ذکر خیر ہونا چاہیے۔ تاکہ اہل سنت و جماعت اور شیعوں کی مجالس میں فرق و امتیاز ہے۔ (بہار شریعت)
سوال نمبر 9:عرفہ و عاشوررا کے بعد اور کون سے روزے رکھے جاتے ہیں؟ جواب :شش عید یعنی شوال میں چھ دن کے روزے:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جس نے رمضان کے روزے رکھے۔ پھر ان کے بعد چھ شوال میں رکھے تو ایسا ہے جیسے دہر کا روزہ رکھا (یعنی پورے سال کا) کہ جو ایک نیکی لائے گا۔ اسے دس ملیں گی۔ تو ماہ رمضان کا روزہ دس مہینے کے برابر ہے اور ان چھ دنوں کے بدلے میں دو مہینے ۔ تو پورے سال کے روزے ہو گئے۔ (نسائی)
اور ایک حدیث میں ہے جس نے رمضان کے روزے رکھے۔ پھر اس کے بعد چھ دن شوال میں رکھے تو گناہوں سے ایسے نکل گیا جیسے آج ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہے۔ (طبرانی)
سوال نمبر 10:شش عید کے روزے ایک ساتھ رکھے جائیں یا متفرق؟ جواب : بہتر یہ ہے کہ یہ روزے متفرق رکھے جائیں اس طرح کہ ہر ہفتہ میں دو (یا جس میں اسے سہولت ہو) اور عید کے بعد لگا تار چھ دن میں ایک ساتھ رکھ لیے تب بھی حرج نہیں۔ (درمختار وغیرہ)سوال نمبر 11:شعبان میں نفلی روزے کب رکھے جاتے ہیں؟ جواب : یوں تو رمضان المبارک کی تعظیم کی خاطر شعبان میں روزوں کا بڑا ثواب ہے۔ لیکن خاص پندرھویں شعبان کے لیے حدیث شریف میں آیا کہ جب شعبان کی پندرہویں رات آجائے تو اس رات کو قیام کرو۔ اور دن میںر وزہ رکھو کہ رب تبارک و تعالیٰ غروب آفتاب سے آسمان دنیا پر خاص تجلی فرماتا ہے اور فرماتا ہے کہ ہے کوئی بخشش چاہنے والا کہ اسے بخش دوں ہے کوئی روزی طلب کرنے والا کہ اسے روزی دوں۔ ہے کوئی گرفتار بلاکہ اسے عافیت دوں۔ ہے کوئی ایسا ہے کوئی ایسا ۔ اور یہ اس تک فرماتا ہے کہ فجرطلوع ہو جائے۔ (ابن ماجہ) اور دوسری احادیث سے ثابت ہے کہ اس شب میں اللہ تعالیٰ سب کو بخش دیتا ہے۔ مگر چند لو گ ہیں کہ محروم کے محروم ہی رہتے ہیں۔ کافر، عداوت والا، رشتہ کاٹنے والا، کپڑا لٹکانے والا۔ والدین کا نافرمان، شرابی اور قاتل کہ اللہ تعالیٰ ان کی طرف نظر رحمت نہیں فرماتا ۔ (طبرانی ، بیہقی)سوال نمبر 12:ماہ رجب کی کس تاریخ کو روزہ رکھنا مسنون ہے؟ جواب : ایک حدیث شریف میں آیا ہے’’ کہ جو ۲۷ رجب کا روزہ رکھے اللہ تعالیٰ اس کے لیے پانچ برس کے روزوں کا ثواب لکھے ‘‘ اور یوں تو روزہ رکھنے کے لیے پورا مہینہ ہے جب چاہے رکھے ثواب ہے۔ سوال نمبر 13:کیا ہر مہینے میں تین روزوں کے لیے کوئی حکم ہے؟ جواب :ہاں حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ’’ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین باتوں کی وصیت فرمائی۔ ان میں سے ایک یہ کہ ہر مہینے میں تین روزے رکھوں (بخاری و مسلم) ایک حدیث شریف میں ہے کہ ہر مہینے میں تین دن کے روزے ایسے ہیں۔ جیسے دہر (ہمیشہ ) کا روزہ (بخاری) ایک اور حدیث میں ہے کہ رمضان کے روزے اور ہر مہینے میں تین دن کے روزے ، سینہ کی خرابی کو دور کرتے ہیں ‘‘ (امام احمد)
ایک اور حدیث شریف میں فرمایا کہ جس سے ہو سکے ہر مہینہ میں تین روزے رکھے کہ ہر روزہ دس گناہ مٹاتا ہے۔ اور گناہ سے ایسا پاک کر دیتا ہے جیسا پانی کپڑے کو۔ (طبرانی)
سوال نمبر 14:مہینے کے یہ تین دن متعین ہیں یا جب چاہے رکھے؟ جواب :سارے مہینے میں جب چاہے یہ روزے رکھے مگر حدیث شریف میں ہے کہ جب مہینے میں تین دن روزے رکھنے ہوں تو تیرہ چودہ پندرہ کو رکھو۔ (جنہیں ایام بیض یعنی روشن و منور دن کہا جاتا ہے)
تو ان تین تاریخوں میں تین روزے رکھنا مستحب در مستحب ہے یعنی دوہرے مستحب کا ثواب ملے گا۔ ایک تین دن کے روزے دوسرے ان تین تاریخوں کے روزے ۔ امید رکھنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ان مبارک ایام اور روشن راتوں کے طفیل ہمارے قلوب کو روشن و منور فرمائے۔ آمین
سوال نمبر 15:ہفتہ کے کن ایام میں بالخصوص روزہ رکھنا مستحب ہے؟ جواب :پیر اور جمعرات کے روزے ، پسندید روزوں میں ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ’’پیرا اور جمعرات کو اعمال (بارگاہ خداوندی میں ) پیش ہوتے ہیں۔ تو میں پسند کرتا ہوں کہ میرا عمل اس حالت میں پیش ہو کہ میں روزہ دار ہوں۔ ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پیر اور جمعرات کو خیال کر کے روزہ رکھتے تھے۔ (ترمذی شریف)
صحیح مسلم شریف میں مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پیر کے دن کے روزے کا سبب دریافت کیا گیا تو فرمایا ’’ اسی میں میں میری ولادت ہوئی اور اسی میں مجھ پر وحی نازل ہوئی‘‘۔
قربان اے دو شنبہ، تجھ پر ہزار جمعے
چمکا دیا نصیبہ صبح شب ولادت
سوال نمبر 16:بدھ اور جمعرات کے روزوں میں بھی فضیلت ہے یا نہیں؟ جواب :رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو چہار شنبہ اور پنج شنبہ (بدھ، جمعرات) کو روزے رکھے اس کے لیے دوزخ سے برات لکھ دی گئی ہے۔ (ابو العیلیٰ)
اور ایک حدیث شریف میں ہے کہ جس نے چہار شنبہ پنج شنبہ جمعہ کو روزے رکھے اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت میں ایک مکان بنائے گا۔ جس کا باہر کا حصہ اندر سے اور اندر کا باہر سے دیکھائی دے گا۔ اور دوسری روایت میں ہے کہ جو ان تین دنوں کے روزے رکھے پھر جمعہ کو تھوڑا یا زیادہ تصدیق کرے تو جو گناہ کیا ہے ۔ بخش دیا جائے گا اور ایسا ہو جائے گا جیسے اس دن اپنی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا۔ (طبرانی)
سوال نمبر 17:صرف جمعہ کا روزہ رکھنا کیسا ہے؟ جواب :خصوصیت کے ساتھ جمعہ کے دن روزہ رکھنا کہ نہ اس سے پہلے رکھے نہ بعد میں یہ مکرؤہ تنز یہی ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ راتوں میں سے جمعہ کی رات کی قیام کے لیے، اور دنوں میں سے جمعہ کے دن کو روزہ کے لیے خاص نہ کرو۔ ہاں کوئی کسی قسم کا روزہ رکھتا تھا اور جمعہ کا دن روزہ میں واقع ہو گیا۔ تو حرج نہیں۔ (مسلم شریف) اور ابن خزیمہ کی روایت میں ہے کہ جمعہ کا دن عید ہے لہٰذا عید کے دن کو روزہ کا دن نہ کرو۔ مگر یہ کہ اس سے قبل یا بعد روزہ رکھو۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے خانہ کعبہ کے طواف کے دوران پوچھا گیا کہ کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعہ کے روز، روزہ سے منع فرمایا ہے۔ کہا ’’ہاں اس گھر کے رب کی قسم‘‘ (بخاری۔ مسلم )سوال نمبر 18:نفلی روزہ توڑ دینا کن صورتوں میں جائز ہے؟ جواب :نفلی روزہ بلا عذر توڑ دینا ناجائز ہے مگر بعض صورتوں میں نفلی روزہ توڑ دینے کی اجازت ہے۔ مثلاً مہمان کے ساتھ اگر میزبان نہ کھائے گا تو اسے ناگوار ہوگا۔ یہ کسی کا مہمان ہے اگر کھانا نہ کھائے گا تو میزبان کو اذیت ہوگی تو نفل روزہ توڑنے کے لیے یہ عذر ہے بشرطیکہ یہ بھروسہ ہو کہ اس کی قضا رکھ لے گا۔ اور بشرطیکہ ضحوئہ کبریٰ سے پہلے توڑے بعد کو نہیں۔ ہاں ماں باپ نفلی روزہ رکھنے پر ناراض ہوں (مثلاً شوق میں روزہ رکھ لیا مگر اس کی برداشت نہیں) تو زوال کے بعد بھی ماں باپ کی ناراضگی کے سبب توڑ سکتا ہے۔ اور اس میں بھی عصر سے قبل توڑ سکتا ہے بعد عصر نہیں۔ (عالمگیری) اور ماں باپ اگر بیٹے کو روزہ نفل سے منع کر دیں اس وجہ سے کہ مرض کا اندیشہ ہے تو ماں باپ کی اطاعت لازم ہے۔ (ردالمحتار ) سوال نمبر 19:دعوت کی خاطر روزہ توڑ دینا جائز ہے یا نہیں؟ جواب :مسلمان بھائی کی دعوت قبول کرنا سنت ہے۔ اور اس کے لیے ضحوئہ کبریٰ سے قبل روزہ نفل توڑنے کی اجازت ہے۔ (درمختار)سوال نمبر 20:شوہر کی اجازت کے بغیر نفلی روزہ رکھنے کی بابت کیا حکم ہے؟ جواب :عورت بغیر شوہر کی اجازت کے نفل اور منت اور قسم کے روزے نہ رکھے۔ اور رکھ لیے تو شوہر توڑا سکتا ہے۔ مگر توڑے گی تو قضا واجب ہوگی۔ مگر اس کی قضا میں بھی شوہر کی اجازت درکار ہے۔
ہاں اگرشوہر کا کوئی حرج نہ ہو۔ مثلاً وہ سفر میں ہے یا بیمار ہے یا احرام میں ہے تو ان حالتوںمیں بغیر اجازت کے بھی قضا رکھ سکتی ہے۔بلکہ اگر وہ منع کرے جب بھی اور ان دنوں میں بھی بے (بغیر) اس کی اجازت کے نفل روزہ نہیں رکھ سکتی۔ رمضان اور قضائے رمضان کے لیے شوہر کی اجازت کی کچھ ضرورت نہیں۔ بلکہ اس کی ممانعت پر بھی رکھے۔ (درمختار۔ردالمحتار)