جواب : زکوٰۃ دراصل اس صفتِ ہمدردی و رحم کے باقاعدہ استعمال کا نام ہے جو ایک مالدار مسلمان کے دل میں دوسرے حاجت مند مسلمان کے ساتھ فطرۃً موجود ہے یا یوں کہہ لو کہ آپس میںمسلمانوں کے درمیان ہمددری اور باہم ایک دوسرے کی مخصوص مالی امداد اور اعانت کا نام زکوٰۃ ہے، لیکن اصلاحِ شریعت میں زکوٰۃ مال کے ایک حصہ کا جو شریعت نے مقرر کیا ہے، مخصوص مسلمان فقیر کو مالک کر دینا ہے۔
سوال نمبر 2: اسلام میںزکوٰۃ کی کیا اہمیت ہے؟
جواب :زکوٰۃ کی اہمیت کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ:
۱۔ زکوٰۃ دین کا فرضِ اعظم اور ارکانِ اسلام کا تیسرا اہم رکن ہے۔
۲۔ قرآنِ عظیم میں بیسیوں جگہ نماز کے ساتھ اس کا ذکر فرمایا گیا ۔
۳۔ اللہ تعالیٰ نے طرح طرح کے بندوں کو اس فرض کی طرف بلایا۔
۴۔ زکوٰۃ ادا نہ کرنے والوں کو سخت عذاب سے ڈرایا۔
۵۔ صاف صاف بتایا کہ زنبار( ہر گز ہرگز) یہ نہ سمجھنا کہ زکوٰۃ دی تو مال میںسے اتنا کم ہو گیا بلکہ اس سے مال بڑھتا ہے۔
۶۔ زکوٰۃ ادا کرنے والے اللہ تعالیٰ کے محبوب بندوں میں شمار ہوتے ہیں اور یہ کمالِ ایمان کی نشانی ہے۔
۷۔ زکوٰۃ سے جی چرانے والوں کا حشر خراب ہوتا ہے اور مال بھی برباد ہو جاتا ہے۔
۸۔ زکوٰۃ کی فرضیت کا انکار کفر ہے اور منکر کافر، اسلامی برادری سے خارج ہے۔
۹۔ زکوٰۃ ادا نہ کرنے والا سخت ناشکرا اور گنہگار ہے اور آخرت میں ملعون۔
۱۰۔ ادا میں تاخیر کرنے والا گنہگار اور مردود الشہادۃ ہے، اس کی گواہی نامقبول ۔
سوال نمبر 3: زکوٰۃ کیسے اور کیونکر فرض ہوئی؟
جواب :اسلام میںشروع ہی سے مسلمانوں کو خصوصیت سے توجہ دلائی جاتی تھی کہ وہ حتی الامکان ایک دوسرے کے کام آئیں اور ضررورت سے زیادہ جو بھی پائیں وہ مسکینوں، یتیموں ، بیواؤں اور حاجت مندوں پر صرف کریں اور اپنی ہمدردی و غمگساری کو دوسرے مسلمانوں کا رفیق بنائیں، آسان اسلام کی اس پاکیزہ تعلیم کی بدولت مسلمان غرباء و مساکین کی ادمداد و اعانت میں جو کچھ بن پڑتا اس میں کمی نہ کرتے، تاہم ایسا کوئی قاعدہ مقرر نہ تھا جس پر بطور آئین و ضابطہ کے عمل کیا جاتا ہو۔
مکہ معظمہ سے ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں آکر جب مسلمانوں کو کسی قدر اطمینان و سکون نصیب ہوا، انہیں فتوحات نصیب ہوئیں، زمینیں اور جاگیریں ہاتھ آئیں ، انہوں نے اپنا کاروبار شروع کیا اور تجارت کی آمدنی بڑھی تو رفتہ رفتہ مناسب حالا ت کے تحت زکوٰۃ کا پورا نظام فتح مکہ کے بعد مکمل ہوا اور اس کے احکام و قوانین مرتب ہوئے اور نظامِ زکوٰۃ نے آئین و ضابطہ کی شکل اخیتار کی۔
سوال نمبر 4: زکوٰۃ ادا کرنے سے ادا کرنے والے کو کیا فائدہ پہنچتا ہے؟
جواب :زکوٰۃ ادا کرنے والے کو یہ فائدہ بھی ہوتا ہے کہ:
۱۔ سخاوت کے باعث اس کا سینہ کشادہ ہو جاتا ہے۔
۲۔ مال کی ناجائز محبت اس کے دل میں گھر نہیں کرتی۔
۳۔ بخل اورامساک یعنی کنجوسی سے اس کا دامن ملوث نہیں ہوتا۔
۴۔ زکوٰۃ دینے سے کاروبار اور دولت و ثروت میں ترقی کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔
۵۔ غرباء ومساکین کووہ اپنی ہی قوم کا ایک حصہ سمجھتا ہے، اس لیے بے حد دولت کا جمع ہو جانا بھی اس میں تکبر اور غرور پیدا نہیں ہونے دیتا۔
۶۔ غرباء و مساکین کو اس کے ساتھ ایک انس و محبت اور اس کی دولت و ثروت کے ساتھ ہمدردی و خیر خواہی پید ا ہو جاتی ہے کیونکہ اس کے مال میں اپنا ایک حصہ موجود قائم سمجھتے ہیں۔
۷۔ دولت مند مسلمان کی دولت ایک ایسی کمپنی کی مثال پیدا کر لیتی ہے جس میں ادنیٰ و اعلیٰ حصہ دار شامل ہوتے ہیں۔
۸۔ دولتمند اور دیندار مسلمان ہمیشہ قابل ہمددری اشخاص کو ٹوہ میں لگے رہتے ہیں تاکہ ان کی مدد کرکے ان کے زخم دل پر مرہم رکھیں اور بڑی سعادت ہے۔
یہ چند فائدے تو دنیاوی ہیں، روحانی اور آخری فائدے جو آخرت میں اس کے کام آئیں گے ، ان فوائد کے علاوہ ہیں۔
سوال نمبر 5: زکوٰۃ کے اموال سے قوم کو کیا فائدہ پہنچتا ہے؟
جواب :جو نقد و جنس زکوٰۃ سے حاصل ہوتی ہے اس سے قوم کو یہ فائدہ پہنچتا ہے کہ:
۱۔ بھیک مانگنے کی رسم قوم سے بالکل مفقود ہو جاتی ہے۔
۲۔ جو لوگ حاجتمند ہونے کے باوجود کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتے، اموالِ زکوٰۃ کی بدولت اپنی آبرو اور خودداری کو ہر حال میںقائم رکھ سکتے ہیں۔
۳۔ جو لوگ اپنی محنت و کوشش سے اپنی روزی کمانے کی صلاحیت نہیں رکھتے جیسے بوڑھے، لُولے،لنگڑے، فالج زدہ، کوڑھی وغیر دوسرے اہلِ حاجت ، ان کی ضروریات زندگی کی ان اموال سے کفالت ہو جاتی ہے۔
۴۔ وہ قرضدار جو اپنا قرض آپ کسی طرح ادا نہیں کر سکتے، یہ اموال ان کی دستگیری کرتے اور انہیں نئی زندگی بخشتے ہیں۔
۵۔ مسافروں کی راحت رسانی اور ان کی مالی اعانت ، اس سے بخوبی ہو سکتی ہے، مسافرت کی حالت میں ، دیس سے دور، صحراو بیاباں بلکہ آبادی میں بھی آدمی کسی حادثہ سے دو چار ہو جائے تو اموالِ زکوٰۃ اس کے لیے نعمتِ غیر مترقبہ سے کم نہیں۔
۶۔ دینی علوم کی خاطر وطنِ عزیز سے دور، قریہ قریہ، شہر شہر سفر رکرنے والے طلبہ کے اس رقم کی فراہمی سے ہزاروں کام بن جاتے ہے، شائقینِ علم دین کی حاجت بر آری کے علاوہ علومِ دینیہ کی سرپرستی بھی ہو جاتی ہے۔
۷۔ یتیموں اور بیواؤں کی اس طرح خبر گیری ہو جاتی ہے کہ ان کے لیے یتیمی ، بیوگی سوہانِ روح نہیں بنتی۔
۸۔ اموالِ زکوٰۃ ، غلامی کی بیڑیاں کاٹ کر آزادی کی نعمت سے بہرہ ور ہوتے ہیں۔
در اصل تمدّنِ انسانی کا سب سے مشکل مسئلہ یہ ہے کہ کسی قوم کے افراد میں فقرو دولت کے لحاظ سے کیونکر ایک تناسب قائم کیا جائے تاکہ دولت چند ہاتھوں میں سمٹ کر نہ رہ جائے، آج تک کوئی انسانی دماغ اس عقدہ کی گرِہ کشائی نہ کر سکا اور کسی تدبیر سے یہ مشکل حل نہ ہوسکی اور افراد کی ملکیت پر سے حقِ ملکیت کا اٹھا دیا جانا اور شخصی قبضہ سے نکال کر جمہور کی ملک میںچلا جانا عملاً اس قدر محال ہے کہ دنیا میں کبھی بھی کسی بھی قوم و ملک میں صحیح طور پر اس کا رواج نہ قائم ہو اور نہ جبر و تشد د کا تسلط کسی قوم وملک میں ہمیشہ باقی رہ سکتا ہے۔ اسلام نے جو مسلمانوں کو دنیا کی بر ترین متمدن قوم بناناچاہتا ہے، اس مسئلہ پر توجہ دی اور اسے ہمیشہ کے لیے طے کر دیا اور اسی کا نام فرضیتِ زکوٰۃ ہے۔
سوال نمبر 6: قرآن و حدیث میں سے زکوٰۃ کے کچھ فضائل بیان کریں؟
جواب :قرآن و حدیث ، زکوٰۃ و خیرات کے فضائل سے مالا مال ہیں، قرآنِ عظیم کی ایک آیتِ کریمہ میں فرمایا کہ ’’ جو لوگ اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ، ان کی کہاوت اس دانہ کی ہے جس سے سات بالیں نکلیں، ہر بال میں سو دانے اور اللہ جسے چاہتا ہے زیاد ہ دیتا ہے‘‘۔
صاف بتا دیا کہ زکوٰۃ دینے سے مال بڑھتا اور دولت میں بے حساب برکتیں لاتا ہے، اس کا صریح مطلب یہ ہے کہ زکوٰۃ نہ دینے سے مال میں تباہی و بربادی آتی ہے۔ اسی لیے حدیث میں آیا ہے کہ زکوٰۃ دے کر اپنے مالوں کو مضبوط قلعوں میں کر لو، (ابو داؤد)
بعض درختوں میں کچھ فاسد اجزاء اس قسم کے پیدا ہو جاتے ہیں کہ پیڑ کی اٹھان کو روک دیتے ہیں۔ احمق نادان انہیں نہ تراشے گا کہ میرے پیڑ سے اتنا کم ہو جائے گا۔ مگر عاقل ہو ش مند تو جانتا ہے کہ ان کے چھانٹنے سے یہ نونہال لہلہا کر درخت بنے گا ورنہ یونہی مرجھا کر رہ جائے گا،یہی حساب زکوٰۃ مال کا ہے، قرآنِ کریم ہی کا یہ اشاد ہے ’’ اور جو کچھ تم خرچ کرو گے، اللہ تعالیٰ اس کی جگہ اور دے گا اوروہ بہتر روزی دینے والا ہے‘‘۔
حدیث شریف میں ہے کہ جو شخص کھجور برابر، حلال کمائی سے صدقہ کرے اور اللہ تعالیٰ قبول نہیں فرماتا مگر حلال کو، تو اسے اللہ تعالیٰ دستِ راست سے قبول فرماتا ہے پھر اسے اس کے مالک کے لیے پرورش فرماتا ہے جیسے تم میں کوئی اپنے بچھیرے کی تربیت کرتا ہے یہاں تک کہ وہ صدقہ پہاڑ برابر ہو جاتا ہے۔ ایک او رحدیث شریف میں ہے کہ جو شخص اللہ کی راہ میں جوڑا (دو چیزیں) خرچ کرے وہ جنت کے سب دروازوں سے بلایا جائے گا۔
سوال نمبر 7: زکوٰۃ ادا نہ کرنے والوں کی مذمت کا بھی کچھ حال بتائیں؟
جواب :قرآن کریم میں ہے کہ ’’ جو لوگ جوڑتے ہیں، سونا، چاندی اور اسے خدا کی راہ میں نہیں اٹھاتے یعنی زکوٰۃ ادا نہیں کرتے، انہیں درد ناک عذاب کی خوشخبری سنا دو ، جس دن تپا یا جائے گا وہ سونا چاندی جہنم کی آگ سے پس داغی جائیں گے، اس سے ان کی پیشانیاں اور کروٹیں اور پیٹھیں (اور ان سے کہا جائے گا)یہ ہے وہ مال جو تم نے اپنے لیے جوڑ کر رکھا تھا، اب چکھو مزہ اس جوڑنے کا۔
پھر اس داغ دینے کو یہ نہ سمجھنا کہ کوئی ہلکا سا چہکا لگا دیا جائے گا یا پیشانی و پشت یا پہلو کی چربی نکل کر بس ہوگی بلکہ اس کا حال بھی حدیث میں بیان فرمایا کہ جو شخص سونے چاندی کا مالک ہو اور اس کا حق ادا نہ کرے (یعنی اس کی زکوٰۃ ادا نہ کرے) تو جب قیامت کا دن ہوگا ، اس کے لیے آگ کے پتر بنائے جائیں گے اور ان پر جہنم کی آگ بھڑ کائی جائے گی اور ان سے اس کی کروٹ اور پیشانی اور پیٹھ داغی جائے گی۔
جب ٹھنڈے ہونے پر آئیں گے پھر ویسے ہی کر دئیے جائیں گے، یہ معاملہ اس دن کا ہے جس کی مقدار پچاس ہزار برس سے یہاں تک کہ بندوں کے درمیان فیصلہ ہو جائے، اب وہ اپنی راہ دیکھے گا خواہ جنت کی طرف جائے یا جہنم کی طرف۔
اور اونٹ کے بارے میں فرمایا جو اس کا حق ادا نہیں کرتا، قیامت کے دن ہموار میدان میں لٹا دیا جائے گا اور وہ انٹ سب کے سب نہایت فربہ ہو کر آئیں گے ، پاؤں سے اسے روندیں گے اور منہ سے کاٹیں گے ۔ جب ان کی پچھلی جماعت گزر جائے گی، پہلی لوٹے گی، ایسا ہی گائے اور بکریوں کے بار ے میں فرمایا کہ اسے ہموار میدان میں لٹا ئیں گے اور وہ سب کی سب گائے بکریاں سینگوں سے ماریں گی اور کھروں سے روندیں گے۔ (مسلم و بخاری)
اور دوسری احادیث میں آیا ہے کہ خشکی و تری میں جو مال تلف ہوتا ہے وہ زکوٰۃ نہ دینے سے تلف ہوتا ہے۔ ایک حدیث شریف میںآیا ہے کہ جو قوم زکوٰۃ نہ دے گی اللہ تعالیٰ اسے قحط میں مبتلا فرمائے گا ۔ ایک اور حدیث شریف میں ہے کہ دوزخ میںسب سے پہلے تین اشخاص جائیں گے، ان میں سے ایک وہ تونگر ہے جو اپنے مال میں اللہ عزوجل کا حق ادا نہیں کرتا ۔
سوال نمبر 8: جو شخص زکوٰۃ نہ دے مگر روپیہ نیک کاموں میں صرف کرے، اس کے لیے کیا حکم ہے؟
جواب :زکوٰۃ نہ دینے کی آفتیں وہ نہیں جن کی تاب آسکے، ابھی اوپر گزر ا کہ زکوٰۃ نہ دینے والے کو ہزار ہا سال ان سخت عذابوں میں گرفتاری کی امید رکھنی چاہیے کہ ضعیف و ناتواں انسان کی کیا جان، اگر پہاڑوں پر ڈالی جائیں، وہ سرمہ ہو کر خاک میں مل ہو جائیں، پھر اس سے بڑھ کر احمق کون کہ اپنا مال جھوٹے سچے نام کی خیرات میںصرف کرے اور اللہ تعالیٰ کا فرض اور اس بادشاہِ قہار کا وہ بھاری قرض گردن پر رہنے دے، یہ شیطان کا بڑا دھوکہ ہے کہ آدمی کو نیکی کے پردے میں ہلاک کرتا ہے ، نادان سمجھتا ہے کہ نیک کام کر رہا ہوں اور نہ جانا کہ نفل، بے فرض نرے دھوکے کی ٹٹی ہے ، اس کا قبول ہونا درکنار، زکوٰۃ نہ دینے کا وبال گردن پر موجود رہتا ہے، فرض ، خاص سلطانی قرض ہے اور نفل گویا تحفہ و نذرانہ ، قرض نہ دیجئے اور بالائی تحفے بھیجئے تو کیا وہ قابلِ قبول ہوں گے خصوصاً اس شنہشاہِ غنی کی بارگاہ میں؟
سوال نمبر 9: مسلمان فقیر کو زکوٰۃ کا مالک کر دینے کا کیا مطلب ہے؟
جواب :تملیک فقیر کہ زکوٰۃ کا رکن ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ زکوٰۃ دینے والا زکوٰۃ صرف یہ نیت زکوٰۃ وادائے فرض اور حکم الٰہی کی بجا آوری کی نیت سے دے اس مال سے اپنا نفع بالکل اٹھائے اور جسے یہ زکوٰۃ دی اسے بالکل مختار بنا دے کہ جس طرح اور جس جائز کام میں چاہے صرف کرے۔
سوال نمبر 10: زکوٰۃ کی رقم سے محتاجوں کو کھانا کھلا دیا جائے تو زکوٰۃ ادا ہوگی یا نہیں؟
جواب :اگر فقیروں مسکینوں کو مثلاً اپنے گھر بلا کر، کھانا پکا کر، بطورِ دعوت کھلاد یا تو ہر گززکوٰۃ ادا نہ ہوگی، ہاں اگر صاحبِ زکوٰۃ نے کھانا، بغیر بکائے یا پکا کر مستحق لوگوں کے گھر پہنچا دیا یا اپنے ہی گھر کھلایا مگر صراحت سے انہیں پہلے مالک کر دیا کہ یہاں کھائیں خواہ لے جائیں تو زکوٰۃ ادا ہو جائے گی کہ تملیکِ فقیر پائی گئی اور زکوٰۃ میں یہی لازم ہے۔ (فتاویٰ رضویہ)
سوال نمبر 11: زکوٰۃ کیسے شخص کو دینی چاہیے یعنی اس کا مالک کسے بنایا جائے؟
جواب :مستحقِ زکوٰۃ کو مالک کرنے میں یہ بھی ضروری ہے کہ ایسے کو دے جو مال کو مال سمجھتا اور قبضہ کرنا جانتا ہو یعنی ایسا نہ ہو کہ پھینک دے یا دھوکہ کھائے ، ورنہ ادا نہ ہوگی مثلاً نہایت چھوٹے بچے یا پاگل کو دینا اور اگر بچہ ہی کو دینا ہے اور بچے کو اتنی عقل نہ ہو تو اس کی طرف سے اس کا باپ یا جس کی نگرانی میںہے ، وہ قبضہ کریں۔ (درمختار، ردالمحتار) اور یہ مال اس بچہ ہی کی ملک ہوگا جس کے لیے دیا گیا۔
سوال نمبر 12: زکوٰۃ ، مردے کے کفن دفن یا مسجد کی تعمیر میں صرف کرسکتے ہیں یا نہیں؟
جواب :زکوٰۃ کا روپیہ مردہ کی تجہیز و تکفین (کفن دفن) یا مسجد کی تعمیر میں نہیں صرف کر سکتے کہ تملیکِ فقیر نہیں پائی گئی اور ان امور میں صرف کرنا چاہیں تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ فقیر کو مالک کر دیں اور وہ صرف کرے اور ثواب دونوں کو ہوگا بلکہ حدیث میں آیا اگر سو ہاتھوں میں صدقہ گزرا تو سب کو ویسا ہی ثواب ملے گا جیسا دینے والے کے لیے اور اس کے اجر میں کچھ کمی نہ ہوگی ۔(ردالمحتار)
یوں ہی مالِ زکوٰۃ سے میت کا قرض ادا کرنا یا اس سے پُل ، سرائے، سقایہ سبیل یا سڑک بنو ا دینا یا ہسپتال تعمیر کرنا یا کنواں کھدوادینا کافی نہیں کہ یہ مال فقیر کی ملک میںنہ گیا ۔(عالمگیری وغیرہ)
سوال نمبر 13: مالِ زکوٰۃ مدرسۂ اسلامیہ میں لینا دینا جائز ہے یا نہیں؟
جواب :مدرسۂ اسلامیہ اگر صحیح اسلامیہ خاص اہلِ سنت کا ہو، نیچریوں ، قادیانیوں رافضیوں وغیرہ ہم مرتدین کا نہ ہو تو اس میں مالِ زکوٰۃ اس شرط پر دیا جا سکتا ہے کہ مدرسہ کا مہتمم اس مال کو جدا رکھے اور خاص تملیکِ فقیر کے مصارف میں صرف کرے، مدرسین یا دیگر ملازمین کی تنخواہ اس سے نہیں دی جاسکتی، نہ مدرسہ کی تعمیر یا مرمت یا فرش وغیرہ میں صرف ہو سکتی ہے ہاں اگر مدرسہ کو دے دے تو تنخواہ مدرسین و ملازمین وغیرہ جملہ مصارف مدرسہ میں صرف ہو سکتا ہے۔ (فتاویٰ رضویہ وغیرہ)